دہلی میں کنچن گنج کے روہنگیا ئی پناہ گزین کیمپ میں اتوار کو لگی آگ‘ تمام ساز وسامان جل کر خاکستر

اتوار کے روز صبح آگ لگانے کے بعد انڈین ایکسپریس مرکزی حکومت کی جانب سے پناہ گزین کیمپ کو فراہم کی جانے والی سہولتوں کا جائزہ لینے پہنچا۔ پیر کے روز دوپہر میں کالج کے طلبہ دو کنچن گنج کے دو’’ ذمہ داران‘‘ کے ساتھ بیٹھ کر آگے کے متعلق تبادلے خیال کررہے تھے۔

راکھ کے ڈھیر پر کھڑے سفید رنگ کا مینس شرٹ اور پھولوں والے اسکرٹ پہنے کھڑے سنجیدہ بیگم(25)کنچن گنج نے اپنے روہنگیاکیمپ میں کچھ بچا یانہیں دیکھ رہی تھیں۔

ایک روز قبل آگ کی لپیٹ میںآکر چالیس گھرجل گئے اور سب کچھ جل کر خاکستر ہوگیاتھا۔اس نے پوچھا کہ ’’ کیایہ میرا گھر ہے‘میں اپنے بچوں او رموبائیل فون کو ہی بچاسکی۔ میری پرچوں کی دکان جل گئی ‘ ساتھ میں کھانے پینے کا تمام سامان ‘ کپڑے ‘ بچوں کی کتابیں‘ میرے پناہ گزین کارڈ ‘ والدین کی تصوئیر ‘ میرے بھائی بہنوں کی تصوئیریں سب جل کر خاکستر ہوگئے‘‘۔

راکھ کے ڈھیر سے وہ کچھ سامان تلاش کرنے کی کوشش کررہی تھی تاکہ اسکریپ ڈیلرکو فروخت کرکے کچھ پیسے حاصل کرلیں۔پچھلے 36گھنٹوں میں مختلف ذرائعوں سے کچھ امداد ملی ہے۔ دہلی کی حکومت نے 230مکینوں کے لئے عارضی شیلٹرس تیار کئے ہیں ۔

بلانکٹس بھی دی گئی ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ نے پینے کا پانی‘ تیار کھانے پیکٹس ‘ کپڑے اور دیگر ضروری سامان کے بشمول بچوں کے لئے دودھ کی بوتلیں فراہم کیں جبکہ ہولی فیملی اور اپولو اسپتال نے ادوایات روانہ کئے او ر کچھ لوگوں نے مردوں کے لئے لنگی اور نماز اور تسبیح تقسیم کی ۔

محمد ہارو ن نے کہاکہ’’ مگر ہم یہ چیز یں رکھیں کہاں پر ؟یہاں پر کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہمیں اپنے گھر اوردوکانیں دوبارہ تعمیر کرنے کے لئے مدد کی ضرورت ہے۔ ہم ان کے شکر گذار ہیں جنھوں نے کپڑوں اور گرینس سے ہماری مدد کی مگر ہمیں تعمیر میٹریل کی ضرورت ہے‘ ہم فقیر نہیں ہیں‘ ہم کماکر جینے کو ترجیح دیتے ہیں‘‘۔

عام آدمی پارٹی کے اوکھلا رکن اسمبلی امانت اللہ خان ’’ جے سی بی کرین سے کچھ دنوں میں میدان سطح برابر کی جائے گی او رگھر تیار کریں گے۔ یہ ایک خانگی زمین ہے مگر ہم جتنا ہوسکے اتنی مدد کریں گے۔ فی الحال ہم نے ایک موبائیل ٹائلٹ سڑک کے ایک کنارے نصب کیاہے او رکھانے پینے کا سامان بھی فراہم کیاجارہا ہے۔ میں نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ فی کیس پچیس ہزا ر روپئے متاثرین کو فراہم کئے جائیں ۔ یہ دوتین دنوں میں متوقع ہے‘‘۔

جامعہ کے ایک سال دوم کی طالب علم اہتمام خان نے کہاکہ ’’ ہم نے فی الحال ان کی عارضی مدد کی ہے ‘ ہم یہ پر گھروں کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے محکمہ آرکٹیکٹ اور انجینئرنگ کے لوگوں سے ہم رابطے میں ہیں اور اس کام کے لئے پیسے بھی جمع کررہے ہیں‘‘۔

عارضی شیلٹر میں انیس سال کی سورہ اپنے پانچ ماہ کے بچے کو سلانے کی کوشش کررہی تھی ‘ گرمی کی شدت سے وہ زار وقطار روہاتھا ۔ وہاں پر بے شمار مکھیاں بھی تھیں اور بچے کو ڈھانکنے کے لئے کپڑے کا ایک تکڑا بھی نہیں تھا۔