چین اور ترکی نے اختلافات فراموش کردیئے ، دونوں ممالک کے صدور کی ملاقات
ہانگ زو (چین)۔3 ستمبر ۔(سیاست ڈاٹ کام) چینی صدر ژی جن پنگ اور ان کے ترک ہم منصب طیب اردغان نے دہشت گردی سے مقابلے میں تعاون کو بڑھانے پر اتفاق کیا ہے ۔ قبل ازیں ترک نژاد مسلم اقلیت کے ساتھ چین کے سلوک کے معاملہ پر دونوں ملکوں کے کافی اختلافات تھے جنہیں فی الحال فراموش کردیا گیا ہے ۔سینکڑوں بلکہ غالباً ہزاروں ایغور لوگ چین کے مغربی علاقہ سنکیانگ کے شورش زد ہ حالات سے بچنے کیلئے خفیہ طور سے جنوب مشرقی ایشیا کے راستے ترکی پہنچ گئے ہیں جہاں انہیں اپنے مذہب پر چلنے اور ثقافتی طور پر آزادی محسوس کرتے ہیں۔ انہیں وہاں کے ماحول سے ہم آہنگی محسوس ہوتی ہے ۔ چین کا کہنا ہے کہ بہت سے ایغور آخرکار عراق اور شام میں جنگجوؤں کے ساتھ لڑنے پہنچ گئے ہیں۔تاہم انقرہ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ چین میں مذہبی ظلم و ستم سے بچنے کیلئے ہجرت کرنے والوں کے لئے اپنے دروازے کھلے رکھے گا۔انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ چین میں جو شورش ہے اس کی وجہ حکومت کی ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف ردعمل ہے ۔سنکیانگ میں افسران نے مذہبی شناخت ظاہر کرنے والی علامتوں جیسے برقعہ اور داڑھی پر سخت پابندی لگارکھی ہے ۔ترکی نے ماہ رمضان میں ایغور لوگوں کے نماز روزہ پر پابندی لگانے کی خبروں پر ناراضگی ظاہر کی تھی جس سے چین خفا ہوگیا تھا ۔ ترک مظاہرین نے ایغور لوگوں کے ساتھ چین کے سلوک کے معاملہ پر چینی سفارتخانہ تک مارچ کی تھی۔دونوں ملکوں کا ایغور مہاجروں کو تھائی لینڈ سے چین واپس بھیجنے پر بھی اختلاف ہے ۔چین اس بات کو ماننے سے انکار کرتا ہے کہ ایغور آبادی کو مذہبی آزادی نہیں دیتا۔مشرقی چینی شہر میں جی۔20 کانفرنس کے موقع پر ژی جن پنگ نے اردغان سے کہا کہ وہ اس بات کے لئے ترکی کے معترف ہیں کہ وہ اپنے علاقہ کو چین کو نقصان پہنچانے والی حرکتوں کیلئے استعمال نہیں کرنے دے گا ۔شی نے کہا ’’امید ہے کہ دونوں فریق ‘‘دہشت گردی مخالف تعاون کے معاملہ میں اچھے نتائج حاصل کرسکتے ہیں۔اردغان نے کہا دہشت گردی سے لڑنا ایک طویل مدتی معاملہ ہے ۔ دونوں ملکوں کو اس کیلئے اپنے تعلقات مضبوط کرنے کی ضرورت ہے ۔اردگان نے ترکی کی سلامتی اور استحکام میں مدد کیلئے چین کا شکریہ ادا کیا۔چین سنکیانگ کے حالیہ تشدد کیلئے مسلم جنگوؤں خصوصاً مشرقی ترکستان اسلامی تحریک کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے ۔