نئی دہلی۔ وزرات داخلہ کے ذرائع نے اس بات سے انکار کردیا ہے کہ جموں کشمیر میں روکے ہوئے ازسرنو حلقہ بندی پر کوئی جائزہ تبادلہ خیال ہوا ہے‘ مگر میڈیا کی قیاس آرائیوں کی وجہہ سے ریاست کی اہم علاقائی جماعتوں کے لیڈران عمرعبداللہ اور محبوبہ مفتی نے ایسے اقدامات کی مخالفت کی ہے۔
جموں کشمیر میں آخری مرتبہ1995میں حلقوں کی از سر نو حد بند ی ہوئی تھی او ریہ صدر راج کے دوران بھی ہوا ہے جہاس کے بعد ریاسست میں 87اسمبلی حلقہ جات کی تشکیل عمل میں ائی تھی‘ کشمیر وادی سے 46نمائندے جبکہ جموں علاقے سے 37اور لداخ سے چار حلقوں کی تشکیل سے عمل میں ائی تھی۔
اس ازسر نوحلقہ بندی کا جائزہ لینے کی تجویز بی جے پی کی دیرینہ خواہش ہے جس کا مقصد ریاست تمام علاقوں کو مساوی نمائندگی کا موقع فراہم کرنا ہے۔
جموں کشمیر میں ازسر نو حلقہ بندی کی رپورٹ کے اقدام پر نیشنل کانفرنس کے لیڈر عمرعبداللہ نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہاکہ”یہ تعجب کی بات ہے کہ بی جے پی جموں کشمیر کے ساتھ دیگر ریاستوں کی طرح رویہ اختیار کرنے کے متعلق با ت کرتی ہے اور اس کے لئے ارٹیکل370اور 35اے ہٹانے پر زوردیتی ہے
مگر ازسر نو حلقہ بندی کے متعلق اس کی یہ سونچ دیگر ریاستوں کے تقابل کی نہیں ہوتی‘ حالانکہ جموں کشمیر نیشنل کانفرنس اس کی سختی کے ساتھ مخالفت کررہی ہے اور عوام کی رائے حاصل کئے بغیر یہ اقدام اٹھایاجارہا ہے“۔
اس کی مخالف او رپی ڈی پی کی سربراہ محبوبہ مفتی نے کہاکہ ”جبری طور پر ازسر نو حلقہ بندی ریاست کو فرقہ وارانہ خطوط پر ایک او رمرتبہ جذباتی تقسیم کے دہانے پر پہنچانا ہے‘ پرانے زخموں پر مرہم لگانے کے بجائے حکومت ہند کشمیر پر مزید دردڈال رہی ہے