دونوں دھڑوں کے پاس اکثریت نہیں تھی،ضمیر کے مطابق فیصلہ کیا’بے ایمان‘ نہیں بننا چاہتا تھ
جموں – ریاستی گورنر ستہ پال ملک نے کہا ہے کہ اگر انہوں نے دلی کی طرف دیکھا ہوتا تو انہیںریاست میں سجاد لون کی سربراہی والی حکومت بنانا تھی، اور تاریخ انہیں ’’بے ایمان‘‘ کے طور پر یاد کرتی۔آئی ٹی ایم یونیورسٹی گوالیار میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا’’دلی کی طرف دیکھتا تو مجھے لون کی سرکار بنانا پڑتی اور میں تاریخ میں ایک بے ایمان آدمی کے طور پر جانا جاتا‘‘۔
انہوں نے کہا’’ لہٰذا میں نے معاملہ ہی ختم کردیا،جسے جو بھی کہنا ہے کہیں،لیکن مجھے اس بات پر یقین ہے کہ جو کچھ میں نے کیا، سہی کیا‘‘۔گورنر نے کانگریس ، پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس کی بھی نکتہ چینی کی اور کہا’’ اگر یہ لوگ حکومت سازی کیلئے اتنے ہی سنجیدہ ہوتے وہ ایک روز قبل ہی جموں آکر ان سے ملتے ‘‘۔انہوں نے کہا’’ یہ عید کی چھٹی تھی،کیا وہ چاہتے تھے کہ گورنر فیکس مشین پر انکا انتظار کرتے‘‘۔
انہوں نے کہا’’ اگر محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ مشترکہ طور پر حکومت سازی کیلئے سنجیدہ ہوتے تو انہوں نے مجھے کال کی ہوتی یا خط بھیج دیا ہوتا‘‘۔انہوں نے کہا ’’ 15روز قبل محبوبہ مفتی ان سے ملیں اور کہا کہ انکے اراکین کو توڑا جارہا ہے، انہیں این آئی اے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں، تو میں نے ان سے کہا کہ میں مرکز سے بات کروں گا، آپ بھی کچھ لوگوں سے بات کریں،میں گواہی دیتا ہوں کہ اور تین لوگوں سے بھی محبوبہ جی نے بات کی،مجھے عمر بھائی نے بھی بتایا تھا کہ اسمبلی تحلیل کی جائے‘‘۔
انکا کہنا تھا’’ مٰن نے اس لئے اسمبلی تحلیل نہیں کی کہ میں سجاد لون کیلئے انتظار کررہا تھا، بلکہ میں نے اس لئے اسمبلی تحلیل نہیں کی کیونکہ میں چاہتا تھا کہ اراکین اسمبلی کے ذریعہ لوگوں کے چھوٹے موٹے کام نکل آئے‘‘۔گورنر نے کہا’’ جب محبوبہ مفتی نے حکومت سازی کے حوالے سے انہیں خط لکھا تو ضروری نہیں تھا کہ رات کے 8بجے گورنر آفس کو بھیجا جاتا، وہ دن میں سرینگر سے جموں آسکتی تھی، یا کسی کے ذریعہ خط بھیج سکتی تھی‘‘۔
گورنر نے کہا’’ میں اُس وقت دلی میں تھا، اور مجھے بتایا گیا کہ سجاد لون نے بھی حکومت کا دعویٰ پیش کیا ہے وٹس ایپ پر خط بھیج کر، لیکن جب میں نے معلوم کیا تو سجاد لون نے سابق گورنر کے پرسنل سیکریٹری جگ جیون نامی شخص کو بھیجا تھا، جو وہاں پہنچ کر ختم ہوا‘‘۔
گورنر نے کہا ’’ حکومتیں وٹس ایپ یا فیکس پر نہیں بنتی، بلکہ اس کے لئے اکثریت ثابت کرنا پڑتی ہے، جو نہ محبوبہ مفتی نے ثابت کی، اراکین کی لسٹ دیکر اور نہ سجاد لون نے ‘‘۔گورنر نے کہا ’’ جب یہ صورتحال وقوع پذیر ہوئی تو انہوں نے ریاستی آئین سے مدد لیکر اسمبلی تحلیل کی،ایسا کر کے انہوں نے دونوں پارٹیوں سے کشمیری عوام کو چھٹکارا دلایا‘‘۔
انکا کہنا تھا’’ پی ڈی پی اور سجاد لون میں سے کسی کے پاس بھی مطلوبہ حمایت نہیں تھی، لہٰذا انہوں نے کشمیری عوام کو دونوں پارٹیوں سے چھٹکارا دلایا۔ملک نے کہا کہ جموں کشمیراسمبلی کوتحلیل کرنے کے بعد نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ اور پی ڈی پی سربراہ محبوبہ مفتی نے خوشی کااظہار کیا اور کہا کہ وہ یہی چاہتے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں4بجے دلی سے واپس آیا اور خفیہ اداروں کے حکام سے صورتحال کے بارے میں تفصیلات حاصل کیں۔میں نے لازمی نہیں سمجھا کہ دلی سے بات کروں کیونکہ دودن پہلے میں اُن سبھی سے ملاتھا۔گورنر نے کہا کہ دہلی سے کوئی صلاح مشورہ یاہدایات یا بحث وتمحیض کئے بغیرمیں نے اسمبلی کو تحلیل کرنے کافیصلہ کیا۔ملک نے کہا کہ ریاستی آئین کی رو سے میں صدر یا پارلیمنٹ سے اجازت لینے کاپابند نہیں ہوں۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے ان بیانات کہ نیشنل کانفرنس اور پیپلزڈیموکریٹک پارٹی نے مخلوط سرکار بنانے کی کوشش پاکستان کی ہدایات پر کی ،انہوں نے کہا کہ وہ فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ کو الزام نہیں دے سکتے ،کیونکہ وہ شیخ عبداللہ کی اولاد ہیں ،جس نے ’’بھارت کاانتخاب‘‘کیااور وہ قوم پرست ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ مفتی محمد سعید بھارتی تھے اور کوئی ان کی قوم پرستی پر شک نہیں کرسکتااور بحیثیت قوم پرست کے کوئی اُن کی بیٹی پر شک نہیں کرسکتا۔گورنر نے کہا کہ لون کہہ رہا ہے کہ اُس نے مجھے واٹس ایپ پر مکتوب بھیجا اور محبوبہ مفتی نے حکومت بنانے کادعویٰ ٹویٹ کیا۔مجھے کبھی معلوم نہ تھا کہ حکومتیں وٹس ایپ پیغامات اور ٹویٹ پیغامات پر بنائی جاتی ہیں ۔
گورنر نے کہا کہ میں یہ سب گزشتہ 15دن سے دیکھ رہا تھا۔مجھے یقین تھا کہ کسی کے پاس اکثریت نہیں ہے ۔اگر میں نے کسی ایک کو بلایا ہوتا تو ایک بڑاڈرامہ شروع ہوتا،پیسے کااستعمال ہوتا اور اس سے بحران پیدا ہوتا۔گورنرراج ریاست میں بھاجپا پی ڈی پی مخلوط حکومت کے گرنے کے بعد 19جون کو 6ماہ کیلئے نافذ کیاگیا تھا۔
ریاستی اسمبلی کوبھی معطل رکھاگیاتھا تاکہ سیاسی جماعتیں نئی حکومت بنانے کے امکانات تلاش کرتیں۔
راج بھون کے ترجمان نے واضح کیاکہ جموں کشمیر کے گورنر نے ریاستی اسمبلی کو تحلیل کرنے کا فیصلہ لیتے ہوئے غیرجانبداری سے کام لیا۔ترجمان نے کہا کہ اس پورے معاملے میں مرکز کی طرف سے کوئی مداخلت یا دبائونہیں تھا اور کچھ نیوزچینل گورنر کے بیان کو غلط طور پیش کررہے ہیں ۔