دیڑھ سال قبل ڈپٹی چیف منسٹر محمد محمود علی ‘ ریاستی وزیرصحت ڈاکٹر سی لکشما ریڈی کے بشمول متعلقہ رکن اسمبلی اور دیگرقائدین نے اس اسپتال کاہنگامی دورہ کیاتھا اس کے بعد برسرعام اس بعد برسرعام اعلان کیا گیاتھا کہ یہاں پر سو کروڑ کی لاگت سے عالیشان اسپتال تعمیر کیاجائے گا جو کارپوریٹ دواخانو ں کے طرز پر ملٹی اسپیشالیٹی ہوگا مگر اتنا طویل عرصہ گذر جانے کے بعد بھی اس طرح کے کوئی اثر دیکھائی نہیں دے رہے ہیں ۔
حیدرآباد۔قدیم شہر حیدرآباد کی گنجان آبادی کے بیچوں بیچ میں واقع دبیر پورہ ائیریہ اسپتال کی زبوں حالی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ پرانے شہر کی عوام کو سہولیتیں پہنچنے میں ریاستی انتظامیہ کس قدر سنجیدہ ہے۔اس دبیر پورہ ائیریہ اسپتال میں جہاں پر معمولی او روبائی امراض جیسے کھانسی ‘ بخار ‘ جڑوں میں درد ‘ چکن گنیا‘ ڈینگو ‘ قئے دست جیسے امراض کا علاج کیاجاتا ہے ۔
برسوں سے یہ دواخانہ کارگرد ہے مگر پچھلے کچھ دنوں سے ریاستی محکمہ صحت عامہ اس اسپتال سے لاپرواہ دیکھائی دے رہا ہے۔ یومیہ اساس پر اسپتال میں دوسے تین سو مریض اؤٹ پیشنٹ میں پرچی بناتے ہیں اور مفت ادوایات حاصل کرتے ہیں۔
پرانے شہر کی آبادی کا بڑا حصہ معاشی طور پر کمزور ہے اور سرکاری اسپتال میں ملنے والی سہولتوں سے استفادہ اٹھاتے ہوئے مہنگائی دوائیوں کے اخراجات سے انہیں بچانے حکومت کی ذمہ داری ہے مگر جس طرح کے حالات ان سرکاری دواخانوں میں دیکھنے کو مل رہے ہیں و ہ قابل تشویش ہے۔
ہر روز دو سو مریضوں کی تشخیص کے لئے ایک ڈاکٹر اور ایک اسٹاف نرس ہی دبیرپورہ ائیر اسپتال میں برسر خدمات ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ اسپتال میں ایک فریج ندارد ہے جس میں انجکشن رکھے جاسکیں۔
ایمرجنسی کیس میں عملہ مذکورہ اسپتال کے عقب میں واقع یو پی ایچ سی سنٹر کو مریض روانہ کرنے پر مجبور ہے۔ عمارت اس قدر خصتہ حال ہے کہ بارش کے موسم میں دیواروں کے گرسکتی ہے۔ معلوم یہ ہوا ہے کہ بارش کے موسم میں اسپتال کے کمرے سوئمنگ پول میں تبدیل ہوجاتے ہیں ‘ اوریہاں پر کام کرنے والا عملہ ٹیبل او رکرسیوں پر چڑھ کر وقت گذارنے کے لئے مجبو رہوجاتا ہے۔
صبح نو بجے سے دوپہر دوبجے تک یہا ں پر طبی تشخیص کاعمل کیاجاتا ہے ۔ پرانے شہر کے دوردراز علاقوں سے بھی لوگ یہاں پرعام امراض کے علاج کے لئے آتے ہیں۔ معلوم یہ ہوا ہے کہ اسپتال میں چار ڈاکٹرس کی تعیناتی کی گئی تھی مگر عملے کی کمی کے سبب انہیںیاتو ملک پیٹ ائیریہ اسپتال کو منتقل کردیاگیا یا پھر اطراف واکناف کے دیگر اسپتالوں کو روانہ کردیاگیا ۔ عملے کی کمی کا اثر مریضوں کی تشخیص پر پڑھا ہے۔
اسپتال میں موجود ایک اسٹاف نرس ہی اسپتال کے تمام کام انجام دے رہی ہیں۔اسپتال میں ایک وارڈ بوائی ہے جو نہ صرف ڈاکٹرکے ہاتھ کے نیچے کام کرتا ہے بلکہ اسپتال کی صفائی کی بھی ذمہ داری اسی پر ہے۔ اسپتال میں بنیادی سہولتوں کی کمی بھی ہے ۔
مریضوں کے لئے نہ تو بیت الخلاء بنایاگیا ہے او رنہ ہی انہیں انتظار کے دوران بیٹھنے کی سہولت فراہم کی گئی ہے‘ او رنہ ہی پینے کے پانی کی سہولتیں مہیاکی گئی ہیں۔ایک ایکڑ سے زائد اسپتال کی عارضی خالی پڑی ہے جہاں پر عدم صفائی کے سبب کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔
دیڑھ سال قبل ڈپٹی چیف منسٹر محمد محمود علی ‘ ریاستی وزیرصحت ڈاکٹر سی لکشما ریڈی کے بشمول متعلقہ رکن اسمبلی اور دیگرقائدین نے اس اسپتال کاہنگامی دورہ کیاتھا اس کے بعدڈپٹی چیف منسٹر نے برسرعام اس با تک اعلان کیاتھا کہ یہاں پر ایک سو کروڑ کی لاگت سے عالیشان اسپتال تعمیر کیاجائے
گا جو کارپوریٹ دواخانو ں کے طرز پر ملٹی اسپیشالیٹی ہوگا مگر اتنا طویل عرصہ گذر جانے کے بعد بھی اس طرح کے کوئی اثر دیکھائی نہیں دے رہے ہیں ۔ دبیرپورہ ائیر یا اسپتال کے عقب میں ایک اور دواخانہ ہے جہاں پر ٹی بی کا ٹیکہ دیاجاتا ہے اور ٹی بی کے مریضوں کا علاج بھی کیاجاتا ہے۔
مذکورہ اسپتال کی تعمیر آصف جاہ صابع نے کی تھی تاکہ یہاں پر ٹی بی کے مریضوں کامفت علاج کیاجاسکے۔ یہاں پر سے بھی عملے کی کمی اور مریضوں کے ساتھ بدسلوکی کی بے شمار شکایتیں موصول ہوئی ہیں۔ حکومت بالخصوص شہری انتظامیہ کو چاہئے کہ وہ قدیم شہر کی عوام کو سہولتوں کی فراہمی میں بیان بازیوں کے بجائے عملی اقدامات سے کام لے اور حکومت کے ذمہ داران اپنے وعدوں او راعلانات کی تکمیل کے لئے سنجیدہ اقدامات اٹھائیں۔
اسپتال کے وسیع وعریض میدان میں نور خان بازار کا برقی دفتر منتقل کئے جانے کی افواہوں کے سبب مقامی لوگوں کافی پریشان ہیں ‘ کیونکہ دبیر پورہ ائیریہ اسپتال سہولتوں کی کمی کے باوجود دبیر پورہ اور اس کے اطراف واکناف کے علاقوں میں رہنے والے معاشی طورپر کمزور خاندانوں کے لئے ایک مفت علاج اور ادوایات ایک واحد مرکز ہے۔
جنگی خطوط پر دبیر پورہ اسپتال کی قدیم عمار ت کی مرمت‘عملے کا تقرر ‘ ڈاکٹرس کی بھرتی اور عصری سہولتوں کی فراہمی قدیم شہر کی عوام کے لئے راحت کاکام ہوگا۔
You must be logged in to post a comment.