اے ٹی ایس کے سربراہ اتل کلکرنی نے کہاکہ مسلم نوجوانوں دہشت گردتنظیمو ں اور ایسے عناصر سے دور رہیں۔
ممبئی۔ ممبئی سے متصل کلیان کے بعد ہی داعش کا معاملہ ہمارے یہاں سامنے آیا او رتمام دہشت گرد تنظیموں کا وجود ہے۔ اس سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔ یہ کہنا غلط ہے کہ مسلم نوجوانوں کو اے ٹی ایس یا ایجنسیاں ہی حکومت کے اشارو پر اپنا نشانہ بناتی ہیں یہ سراسر غلط او ربے بنیاد الزام ہے اس میں کوئی صداقت نہیں ہے‘ ایسا دعوی اے ٹی ایس چیف اتل چندر کلکرنی نے کیا ہے۔ واضح رہے کہ ملک میں داعش کے نام سے مسلم نوجواں کی گرفتاری پر مسلمانوں میں اضطراب او ربے چینی پائی جارہی ہے اور ایجنسیاں مخصوص طبقہ کو خوش کرنے کے لئے تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کو نشانہ بنارہی ہیں تاکہ سرکاری کی خوشنودی حاصل کرسکیں ۔
ایک عام تاثر ہے کہ ان معاملات میں حکومت کی بھی پشت پناہی حاصل ہے اور حکومت کے اشاروں پر ہی یہ تمام کاروائیاں کی جارہی ہیں جب کہ پہلے ہی مسلم نوجوانوں کو سیمی انڈین مجاہدین ‘لشکر طیبہ اور اب داعش کے نام سے گرفتار کیاجاتا رہا ہے یہ الزام بھی ہے کہ گرفتاریاں ایجنسیوں کے ہی لوگ مسلم نوجوانوں کے جذبات مشتعل کرکے کرواتے ہیں اور سوشیل میڈیا پر ان کے جذبات کو مشتعل کرکے انہیں بعد میں گرفتار کیاجاتا ہے۔
اے ٹی ایس سربراہ اتل کلکرنی کاکہنا ہے کلہ اس میں کوئی صداقت نہیں ہے کہ اے ٹی ایس اور حکومت اس قسم کے چیزوں میں ملوث ہیں۔ داعش کا پہلا واقعہ اس وقت سامنے آیاجب ممبئی سے متصل شہر کلیان سے دوچار مسلم نوجوان داعش میں شمولیت کے لئے ہندوستان چھوڑ کر چلے گئے تھے اس کے بعد سے ہی اے ٹی ایس اور دیگر ایجنسیوں کی مدد سے ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جارہی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ داعش سوشیل میڈیا پر جو پروپگنڈہ کرتا ہے اس سے وہ مسلم نوجوانوں کو اپنی جانب مائل کرنے کے لئے ایسے ہتکھنڈے استعمال کرتا ہے۔ انہیں فسادات کا ویڈیودیکھاکر مشتعل کرتا ہے ان تمام چیزوں کی کیا حیثیت ہوتی ہے ۔
یہ نوجوان کو معلوم نہیں ہوتی ہے اس کے باوجود نوجوان گمراہ ہوجاتے ہیں مسلم نوجوان کو سوشیل میڈیا کا استعمال بڑی محتاط طریقہ سے کرنا چاہئے اور والدین وسرپرستوں کو بھی ان پر توجہ دینی چاہئے کہ ان کا نوجوان لڑکا کیاکررہا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ ملک میں تمام فرقوں کو یکساں موقع فراہم کئے جاتے ہیں مسلمان بھی اسملک کا حصہ ہیں‘ یہ انہیں سمجھنا چاہئے بردارن وطن کو بھی مسلمانوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہئے تبھی مہارشٹرا ہی نہیں ملک میں اتحاد اور امن کا ماحول بنے گا اور قیام عمل میں لانا آسان ہوگا۔
اتل چندر کلکرنی نے مزیدکہاکہ انہیں واپس لانے کے لئے اے ٹی ای سکی کوشش جاری ہے اور ان کے روزگار کے لئے دیہی ترقیاتی وزرات سمیت دیگر وزرات سے بھی مدد طلب کررہی ہے جو نوجوان راہ راست پر لائے گئے ہیں انہیں چھوٹے موٹے کاروبار شروع کرنے کے لئے قرض بھی فراہم کئے جارہے ہیں اس کی کوشش ہم نے شروع کی ہے تاکہ ان کی زندگیوں کو تابناک ہوسکیں انہیں کورسیز میں داخلے بھی دئے جاتے ہیں اس کے لئے دیہی ترقیاتی وزرات نہ صرف امداد فراہم کرتی ہے بلکہ انہیں داخلے بھی دیتی ہے۔
بقول اے ٹی ایس چیف فرقہ وارانہ تشدد اور مذہبی منافرت کا خاتمہ ضروری ہے اس کے لئے وقتافوقتا اے ٹی ایس ایسے متنازع پوسٹ اور خاکو ں کو حذف بھی کرتی ہے اے ٹی ایس نے چار سوسے زائدایسی متنازع ویب سائٹ بند کردی ہیں جن سے مذہبی منافرت پھیلنے کا خدشہ تھا اور اس میں دہشت گرد تنظیموں کی ویب سائیڈ بھی شامل ہے۔ اے ٹی ایس سربراہ نے بتایا کہ مرکزی وزرات داخلہ سوشیل میڈیاپر توہین رسالت کے معاملات کے سدباب کے لئے الرٹ ہے اور اس کے لئے علیحدہ سائبر سل بھی تشکیل دئے گئے ہیں۔
اتل چندر کلکرنی نے انٹریو میں تفصیل سے مطالع کیاہے کہ اس طرح جہاد اور خلافت کاسلسلے میں ورغلایاجاتا ہے اور نوجوان بہک جاتے ہیں۔ او رسوشیل میڈیاذرائع پر رابطہ کے بعد انہیں پاسپورٹ تیار کرنے کی ہدایت دیتے ہیں اور پھر خلافت کے لئے لڑنے کی تلقین کی جاتی ہے اس کے بعد اگر وہ پاسپورٹ تیار کرلیتے ہیں تو انہیں جب شام یا عراق نہیں بلاتا ہے تو کہتے ہیں کہ اپنے ملک میں خلافت کے لئے جہاد کرو ایسی ہدایت دی جاتی ہے۔
تنظیمیں ہمارے نوجوان کوگمراہ کررہی ہیں کبھی جہاد کے نام پر تو کبھی لڑکو کا لالچ دے کر تو کبھی بہتر زندگی کاخواب دکھاکر انہیں گمراہ کیاجاتا ہے۔ مسلم نوجوانو سے اتل چندرکلکرنی نے اپیل کی ہے کہ وہ سوشیل میڈیاسے انجان شخص سے گفتگو نہ کریں اگر اسلامی گفتگو کرکے انہیں کوئی بہکاتے تو اس کی صحیح تشریح علماء کرام اور مقامی مساجد کے خطیب وامام سے معلوم کریں کیونکہ انٹرنیٹ پر آپ سے کون مخاطب ہے یہ بھی کرنا ضروری ہے ۔
آج کے اس تفن دور میں روبوٹ بھی انٹرنٹ پر گفتگو کرسکتے ہیں۔ اس لئے مسلم نوجوان کو ان کی دہشت گرد تنظیمو اور ایسے عناصر دور رہنا چاہئے۔ اتل چندر کلکرنی نے ان نوجوانو ں کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ سرکاری ملازمت میں شراکت داری کے لئے آگے ائیں او رحکومت پر تکیہ کرنے کے بجائے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مقابلہ جاتی امتحان میں بھی شرکت کریں