دارالقضاء کو فیملی کورٹ کے مساوی تسلیم کرنے کی ضرورت۔ پروفیسر اخیر الواسیع

اترپردیش۔ ریاست کے وزیراعلی یوگی ادتیہ ناتھ نے ریاست میں عدالتی نظام کو مزیدچست درست کرنے کااعلان کیاہے ‘ انہو ں نے کہاکہ پوری ریاست کے حصول میں عوام کو کافی پریشانی ہوتی ہے او رلمبا انتظار کرنا پڑتا ہے۔انہوں نے اس موقع پر زیادہ سے زیادہ فیملی کورٹ کے قیام کا بھی اعلان کیا ہے ‘جہاں عائلی تنازعات کی یکسوئی کی جاسکے۔حکومت کا ارادہ ہے کہ چاہئے سوال کورٹ ہویا پھر فیملی کورٹ ان میں سشے کچھ تعداد فاسٹ ٹریک کورٹ کی بھی ہوگی۔حکومت کہ اس اعلان کا بھی استقبال کرتے ہیں اور شرط کے ساتھ کہ وہ جیتنے بھی فیملی کورٹ قائم کریں‘ ان میں تمام مذاہب کے جانکاروں کابھی ایک چینل تیار کیاجانا چاہئے‘ تاکہ عوام کو ان کے پرسنل لاء کی روشنی میں فیصلہ دیاجاسکے۔

اس میں توسچائی ہے کہ انصاف میں تاخیر صرف اترپردیش کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کا سلسلہ پورے ملک میں جاری ہے۔اس ملک میں معمولی واقعیت میں بھی ملزمین کی کئی دہائیاں جیلوں میں گزر گئی ہیں ‘ جب فیصلہ سامنے آیا تو پتہ چلا کہ وہ بے گناہ تھے۔سینکڑوں ملزمین کی بے گناہی ثابت ہونے میں تاخیر کے سبب جیلوں میں ہی موت ہوگئی ہے۔ ہندوستان کی مختلف ذیلی اور اعلی عدالتوں میں لاکھوں مقدمات ایسے ہیں جن کی سماعت کا نمبر چھ چھ مہینے میںآتا ہے جس کی وجہہ سے کیس کی مبادیات کا جائزہ لینے میں ہی ججوں کو سالوں بیت جاتے ہیں۔

ایسے حالات میں ریاست اترپردیش کے وزیراعلی یوگی ادتیہ ناتھ نے اگر ججوں کی تعداد میں اضافہ اور عدالتوں کی توسیع کا ارادہ ظاہر کیاہے تو اس کا استقبال کیاجانا چاہئے۔حکومت اترپردیش فیملی کورٹ کے قیام کے لئے بھی سنجیدہ ہے تو اسے یوپی میں بسنے والے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کا خیال کرتے ہوئے ان عدالتوں میں مذہبی امور کے ماہرین کاپینل کی تشکیل کو بھی یقینی بنانا چاہئے۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے تاکہ نکاح ‘ طلاق‘ میراث جیسے مسائل کا حل آسانی کے ساتھ ہوسکے۔ہماری فکر مندی اس بات کو لے کر ہے کہ اکثر دیکھاجاتارہا ہے کہ عدالتوں میں اکثرتنازعات مسلم پرسنل لاء کو لے کر ابھرتے ہیں ‘ وجہہ صاف ہے کہ عدالتوں میں مسلم پرسنل لاء کی آدھی ادھوری معلومات رکھنے والے جج اور وکلا شریعت کی تشریح کرتے ہیں‘ جس سے مقاصد شریعت ہی فوت ہوجاتے ہیں۔

چنانچہ دیکھاگیا ہے کہ ہرسال عدالتوں میں سینکڑوں واقعات غیر شری فیصلوں کی صورت میں سامنے آتے ہیں جو عام مسلمانوں کی ذہنی الجھن او رعومی اذیت کا سبب بن جاتے ہیں ۔ چنانچہ ایسی تکلیف دہ صورتحال کو دیکھ کر مسلم پرسنل لاء کے تحفظ کے علمبرداروں اور شریعت کے سایہ میں زندگی گذارنے کی تمنا کرنے والے عام مسلمانوں کی یہ رائے رہی ہے کہ وہ اپنے تمام عائلی مسائل ملک کے مختلف حصوں میں قائم دارالقضاء سے حل کرائیں۔

اسی تناظر میں راقم الحرف اترپردیش حکومت سے اپیل کرتا ہے کہ وہ فیملی کورٹ کے زیادہ سے زیادہ قیام کے ساتھ ساتھ ریاست کے اندر قائم دارالقضاء یاشرعی عدالتوں کو بھی فیملی کورٹ جیسے اختیارات تفویض کریں۔ کیونکہ جس طرح فیملی کورٹ داخلی تنازعات کو حل کراتے ہیں اسی طرح دارالقضاء بھی نہایت کم وقت او رکم خرچ میں مسلمانوں کو شریعت کی روشنی ایسا انصاف دلانے کی کوشش کرتے ہیں جن پر اکثر لوگ بہ رضاوخوشی عمل کرنے کی کو مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں۔درالقضاء کے تجربات پر ماہرین قانون نے نہایت مثبت رائے دی ہے اور بہت سے غیرمسلم ججوں نے بھی نظام درالقضاء کی اہمیت اور افادیت کا اعتراف کرتے ہوئے کہاہے کہ یہ اس ملک کے نظام انصاف کی ضرورت ہے۔

ہندوستان کی مختلف عدالتوں میں مقدمات کے بوجھ سے کون واقف نہیں ہے لوک عدالتوں کے ذریعہ بھی مقدمات کا بوجھ کم ہونے کانام نہیں ہے جیتنے مقدمات فیصل ہوتے ہیں اتنی ہی تعداد میں نئے مقدمات دائر ہوجاتے ہیں ایسے حالات میں ماہرین قانون اور اس میدان کے تجربہ کار لوگ اس سنگین صورتحال سے نمٹنے کے لئے لوک عدالتوں کے قیام او رمعمولی تنازعات کو مقامی سطح پر حل کرنے کی ترغیب دینے کی سفارش کرتے ہیں۔ ماہرین نے حکومتوں کو یہ مشورہ بھی دیاہے کہ وہ ملک گیر بیداری مہم چلائیں ہ عوام اپنے معاشرتی تنازعات کو آپسی صلح وحل کرلیں او رغیر ضروری طور پر عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹائیں ‘ کیونکہ اس سے نظام انصاف کے وسائل کا ناروا استعمال ہوتا ہے۔عوام کا سرمایہ او رلوگوں کا ناروا وقت بھی ضائع ہوتا ہے ۔

اسی تناظر میں میرا سوال ہے کہ اگر دارالقضاء او رشرعی عدالتوں کے فیصلوں کو فیملی کورٹ یاسیول کورٹ توثیق کرتے تو اس میں کیاقباحت ہے۔ کیالاکھوں مقدمات کو حل کرنے والے دارالقضاء عدالتوں کے بوجھ کو کم نہیں کررہے ہیں اور کیا اس سے قومی اثاثہ اور لوگوں کا وقت ضائع ہونے سے نہیں بچایاجارہا ہے ؟اس پر حکمرانوں او رماہرین قانون کو پوری سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے۔راقم الحروف کی تویہ رائے ہندوستان میں تمام مذاہب کے فیملی کورٹ ہونے چاہئے‘ تاکہ دستور ہند میں جو مذہبی تحفظ او رمذہبی اصولوں پر کار بند رہنے کی جو آزادی دی گئی ہے اس پر لوگ عمل کرسکیں اورپرسنل لاء کی روشنی میں اپنے تنازعات حل کرسکیں ‘ اگر ممکن نہ ہوتو جیتنے بھی فیملی کورٹ ملک میں ہیں ‘ ان میں متعلقہ مذہب کے ماہرین کو بحیثیت جج شامل کیاجائے ‘ تاکہ ایسے فیصلے سامنے ائیں جو متعلقہ فریق کو مذہبی طور پر سکون فراہم کرسکے۔

اسی کے ساتھ ساتھ میرا اصرار ہے کہ مسلمانوں کے دارالقضاء اور شرعی عدالتوں میں جانے کی قانونی گنجائش پیدا کی جانی چاہئے کیونکہ مسلمان اس ملک میں دوسری بڑی اکثریت ہیں اور ملک کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے ہیں‘ جن کے لئے ہر ضلع میں دارالقضاء کی ضرورت ہے ۔ سردست میںیوپی کے وزیر اعلی یوگی ادتیہ ناتھ اور قانون وانصاف کے ریاستی وزیر جوان دنوں فیملی کورٹ کے حق میں ہیں سے اپیل کرنا چاہتا ہوں کہ وہ یوپی سطح پر درالقضاء کی قانونی حیثیت کو تسلیم کریں یا کم ازکم فیملی کورٹ میں کسی مفتی یاعالم کی ججوں کے پیانل میں رکن کی حیثیت سے تقرر عمل میں لائیں۔

عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جب جب مسلم پرسنل لاء کا معاملہ کسی عدالت میں ہوتا ہے تو اس کے جانکاری کے طور پر مسلم وکیل یاجج کو پیش کردیاجاتا ہے جب کہ یہ غلط ہے‘ کسی بھی شرعی معاملے میں عالم یامفتی کی رائے ضروری ہے کیونکہ مسلمان جج یاوکیل ہرگز شریعت سے رمز شناس نہیں ہوسکتے جس کے نتیجہ میں قرآن پاک ‘ سنت او رمقاصد شریعت کے خلاف فیصلے سامنے آجاتے ہیں۔ اس لئے اترپردیش حکومت سے میری اپیل ہے کہ وہ فیملی کورٹ میں عالم یامفتی کا تقرر ضرورطور سے عمل میں لائے۔راقم الحروف کی ہندوستان کے علماء قائدین او رذمہ داران مدارس سے بھی اپیل ہے کہ وہ ملک میں ایسا ماحول بنائیں کے حکومت یا تو دارالقضاء کی اہمیت وافادیت کو تسلیم کرے یاپھر تمام عدالتوں میں عالم مفتی کومشیر تقرر کرے۔یہ ہندوستان کے مسلمانوں کا نہایت اہم مسئلہ ہے۔اس پر علماء دانشوروں کو سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔

میں کل ہند مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ذمہ داران سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ وہ اگر چاہیں تو اس مسلئے کو اپنا ایجنڈہ بناسکتے ہیں اور حکومت پر اس کے لئے دباؤ بناسکتے ہیں ‘ بلکہ سچ بات یہی ہے کہ یہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کی اولین ذمہ داری بھی ہے ۔اس سلسلے میں ہماری حکمت عملی یہ ہونی چاہئے کہ ہم ہر موڑ پر یہ ثابت کریں گے دارالقضاء متوازی عدالت نہیں‘ بلکہ سول کورٹ کی معاون باڈی ہے۔ اس سلسلے میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کو ملک بھر میں ہزاروں کی تعداد میں وکلا کی حمایت حاصل کرنی ہوگی او رمسلم وغیرمسلم دانشواروں کا تعاون بھی ضروری ہے۔ یہ میرا ماننا ہے کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کو تین طلاق کے مسئلہ پر جو ہزیمت اٹھانی پڑی ہے اس کا ازالہ اس نئی تحریک سے ہوسکتا ہے