دارالقضاء نہیں ملت کو اصلاح معاشرہ مراکز کی ضرورت : دانشوران قوم

نئی دہلی : آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سینئر رکن ایڈوکیٹ ظفر یاب جیلانی کے ذریعہ دارالقضا ء قائم کئے جانے والے بیان پر مسلسل سوال اٹھائے جارہے ہیں ۔سب سے اہم سوال یہ اٹھایا جارہا ہے کہ آخرابھی اس مسئلہ کو اٹھانے کی ضرورت کیا تھی جب کہ ملک میں اہم مسائل درپیش ہیں ۔قومی اقلیتی کمیشن کے چیر مین سید غیور الحسن رضوی ، مسلم مجلس اتر پردیش کے صدر یوسف حبیب او رسابق رکن پارلیمنٹ محمد ادیب نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دارالقضاء کے مزید قیام پر بنیادی سوال اٹھائے ہیں۔

مسٹر رضوی نے کہا کہ دارالقضاء کا مطلب ہوتا ہے شرعی عدالت او رجب لفظ عدالت آجاتا ہے توایک تصور یہ پیداہوتا ہے کہ ایک عدالت تو ملک میں چل رہی ہے لیکن مسلم سماج ایک الگ اپنی عدالت قائم کررہی ہے تواسلئے یہ چیز غلط ہے ۔انہوں نے کہا کہ دوسری بات یہ کہ اگر پہلے سے دارالقضاء قائم تھے اورکام کررہے تھے توان کا اب تک کتنا استعمال ہوا ؟ اگرواقعی ان کا استعمال ہوا ہوتا توآج مسلم خواتین جو تین طلاق کے معاملے کو لے کر سپریم کورٹ پہنچ گئیں وہ نہ جاتیں او ر یہ معاملہ دارالقضاء میں ہی حل ہوجاتا ۔انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب صاف ہے کہ دارالقضاء سرگرم نہیں ہے ۔

انہوں نے کہا کہ اگر واقعی مسلم پرسنل لاء بورڈ ملت کے مفاد میں کچھ کرناچاہتا ہے تو اس کو چاہئے کہ اس نام کی جگہ مرکز اصلاح معاشرہ یاپھر کونسلنگ سنٹر قائم کیا جائے ۔انہوں نے کہا کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کو ان سب باتوں سے بچنا چاہئے ۔اورایسی کوئی بات نہیں کرنی چاہئے کہ جس سے ماحول خراب ہوتا ہو ۔

مسلم مجلس اترپردیش کے صدر یوسف حبیب نے کہا کہ میں شاہی امام سید احمد بخاری کے بیان کی تائید کرتا ہو ں او ردارالقضاء کے عنوان سے جو نیا شگوفہ چھوڑا گیا ہے میں اس کی مذمت کرتا ہوں ۔انہوں نے کہا کہ مودی حکومت او ربی جے پی مسلسل مسلمانوں کو نشانہ بنارہی ہے ۔

حال ہی میں جناح کے نام پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو نشانہ بنایا گیا ۔پھر جامعہ ملیہ اسلامیہ او رمسلم یونیورسٹی میں ایس سی ایس ٹی ریزروریشن کا مسئلہ چھیڑا گیا او راب مسلم پرسنل لاء بورڈ نے انہیں نیا موضوع تھمادیا ہے جس کی کوئی ضرورت نہیں تھی ۔انہوں نے کہا کہ جو لوگ شریعت پر عمل کرتے ہیں وہ خود بخود مفتی یا ائمہ کے پاس جاتے ہیں اوراپنے مسائل حل کروالیتے ہیں ۔اس کے لئے خصوصی طورپر کسی ادارہ کے قیام کی ضرورت نہیں ہے اوراگر کرنا بھی ہے تو اس کا پروپگنڈہ کرنے کی ضرورت نہیں تھی ۔