خلیجی ممالک کا خواب چکنا چور ہونے کی وجہہ سے کئی ہندوستانی وطن واپسی کی تیاری میں

دبئی میں زندگی بسر کررہے کئی ہندوستانی خاندان گلف کی ورک پالیسیوں میں تبدیلی او ربڑھتی مہنگائے کے سبب وطن واپسی ہورہے ہیں۔ خلیجی ممالک کی کمزور ہوتی معیشت اور پٹرول کی قیمتوں میں گروٹ کے سبب پیدا شدہ بحران کے نتیجے میں برسوں قبل دبئی کو جانے والے غیر شدی شدہ نوجوان کے لئے وہاں پر گھر بسانے اب مشکل ہوگیاہے۔

علی گڑ ھ کے ساکن ساحل جس کی عمر 42سال کی ہے اٹھ سال قبل دبئی میں گھڑیوں کی بڑی کمپنی اور اٹوموبائیل برانڈ میں کام کرنے کے لئے گئے تھے۔ مگرجب ان کی شادی ہوئی اور بچے بھی تھے ‘موافق تنخواہ میں دبئی میں گذارا اب مشکل ہوگیاہے۔

اپنے گھر والوں کو ہندوستان واپس بھیجنے کا دباؤ ڈالا جارہا ہے۔ ساحل کے مطابق ’’ یہاں پر تعلیم مہنگی ہے۔ میری دوبیٹیاں ہیں جو اب کینڈر گارٹن جو جارہی ہیں۔

مگر ہمارے صرف دوبچے ہیں‘گھریلو مسائل اور ملازمت کے اوقات میں تضاد کی وجہہ سے مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔

بڑھتی مہنگائی بھی بڑا سوا ل ہے۔برسوں سے دبئی میں کام کررہے عامر نے بھی اب فیصلہ کرلیاہے وہ اپنے گھر واپس ہوجائے گا’’ میں او رمیری بیوی اچھی تنخواہ کی ملازمت کرتے ہیں۔ جب ہم لوگ ملازمت کے لئے جاتے ہیں اسوقت ہمارے پاس گھریلو کام کاج میں ہاتھ بٹانے والی مدد بھی ہے۔

مگر اب مارکٹ ڈاؤن چل رہا ہے اور فروخت بھی بہتر نہیں ہے جس کی وجہہ سے تنخوا ہ سے ہٹ کر ملنے والے کمیشن میں کمی آگئی ہے۔جہاں ہماری آمدنی میں کمی ائی ہے وہیں ہمارے اخراجات میں بے تحاشہ اضافہ بھی ہوگیاہے۔

ہندوستانی کرنسی میں میری بیٹی کی سہ ماہی اسکول فیس دولاکھ روپئے تھی اواب ہمیں ٹیکس بھی ادا کرنا پڑرہا ہے‘‘۔ خان نے کہاکہ گلف میں ہندوستان کی مشہور یونیورسٹیوں جیسے اے ایم یو ‘ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے علاوہ پنجاب او رساتھ انڈیا ریاستوں کے مائیگرینٹ اسوسیشن کی مضبوط تعلیمی نٹ ورک ہے او روہ لوگ نئے آنے والوں کے لئے ملازمت کی فراہمی میں اہم رول ادا کررہے ہیں۔ ہم لوگ ایسے لوگوں کے لئے کچھ کرنے سے قاصر ہیں ۔

ایک روز قبل ہی میں نے ملازمت کی تلاش میں دوماہ قبل دوبئی آئے ایک شخص کے لئے بڑی مشکل سے کچھ کھانا لے کر گیاتھا‘‘۔

امارات ریستورنٹ میں خدمات انجام دینے والے پی آر او سمیرکھنہ نے کہاکہ ’’ میرا ایک دوست ہے جس نے یہاں کے بڑھتے اخراجات او رٹیکس کی وجہہ سے گھر واپس جانے کا فیصلہ کیاہے ۔ مگر میرا یہ ماننا ہے کہ درمیانی آمدنی کے لوگوں کے واپس جانا او ربھی زیادہ مشکل حالات کی وجہہ بن سکتا ہے۔

اب تک وہ لوگ تنہا تھے اور اب ان کی گھر گرہستی ہے جس کی مدد کرنا ہے۔ جولوگ پندرہ سو درہم اب بھی کمارہے ہیں وہ بڑے سکون میں ہیں‘‘۔مگر ندیم حسن ہیومن ریسورس ماہر جو 17سالوں سے گلف میں زندگی گذار رہے ہیں نے کہاکہ ’’ میں اس با ت کو نہیں مانتا کہ گلف کی معیشت خراب ہے۔

تعمیرات‘ انفرسٹکچر انڈسٹریز سب جگہ پھیل رہی ہے ۔ دبئی میں جہاں پر بھی دیکھو وہا ں پر عمارت اور برج تعمیر کئے جارہے ہیں اور اراضی برقرار ہے۔دیگر شعبوں جیسے بینکنگ ‘ اٹوموبائیل انڈسٹری کی اہمیت برقرار ہے۔ لوگوں میں بھاری کاروں کو شوق بڑھتا جارہا ہے۔

اس کے علاوہ یوروپ او رامریکہ کے لوگ دبئی میں بسنے کی کوشش کررہے ہیں‘ جس طرح ماضی میں عرب ممالک او رساوتھ ویسٹ ایشیائی ممالک نے دبئی کو ملازمت کے ہب کے طور پر دیکھا کرتے تھے‘‘۔کیرالا کے لوگوں کی دبئی میں اکثریت پائی جات ہے ۔

ورک پرمٹ فیس او رٹیکس میں اضافہ کی وجہہ سے کچھ حدتک ملازمت کی فراہمی میں تبدیلی ائی ہے۔ تاہم