حیدرآباد میں دنیا کی سب سے چھوٹی مسجد

حیدرآباد۔ 16 ۔ ستمبر ۔ ( پریس نوٹ ) یوں تو حیدرآباد کئی چیزوں کے لئے ممتاز ہے۔ یہاں کی یادگار عمارتوں کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ فن تعمیر کے اعتبار سے حیدرآباد میں ایسی بہت سی عمارتیں ہیں جو اپنی مثال آپ ہیں۔ جہاں تک مساجد کا تعلق ہے حیدرآباد میں کئی ایسی مساجد ہیں جو نہایت ہی پرکشش ہیں اور دیکھنے والوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیتی ہیں مگر ایک ایسی بھی مسجد ہے جس کو خود حیدرآبادیوں نے فراموش کردیا ہے۔ یہ مسجد نہ ہی فن تعمیر کا کوئی عجوبہ ہے اور نہ ہی اتنی بڑی ہے کہ اس کو شمار کیا جاسکے مگر یہ مسجد بہت جلد نہ صرف اپنی انفرادیت منوالے گی بلکہ بین الاقوامی سیاحوں کو بھی حیدرآباد کی طرف راغب کرے گی۔رقبہ کے اعتبار سے یہ دنیا کی سب سے چھوٹی مسجد ہے جس میں بمشکل 10 مصلی ہی نماز ادا کرسکتے ہیں۔ یہ مسجد اگرچہ بلندی پر واقع ہے مگر ابھی تک کوئی اس کی طرف توجہ نہیں دیا ہے مگر حیدرآباد میں آثار قدیمہ سے دلچسپی رکھنے والوں کے ایک گروپ نے اس مسجد کی افادیت کو بھانپ لیا اور اب اس مسجد کو دنیا کی سب سے چھوٹی مسجد کا درجہ دلانے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ یہ مسجد درگاہ حضرت سید شاہ عماد الدین محمد محمود الحسینیؒ کی پہاڑی پر واقع ہے ۔ یہ میر محمود کی پہاڑی کشن باغ میں واقع ہے۔ پہاڑی پر چڑھ کر جب آپ درگاہ کے باب الداخلہ کے قریب پہنچیں گے تو آپ کو سیدھی جانب ایک ویران ڈھانچہ نظر آئے گا اور اس کے مینار و محراب دیکھ کر آپ جان جائیں گے یہ مسجد ہی ہے۔ جب آپ قریب جاکر دیکھیں گے تو آپ کو حیرت ہوگی اس چھوٹی سے مسجد میں نہ صرف محراب ہے بلکہ چھوٹا سا منبر بھی ہے اور امام کے پیچھے صرف دو صفوں کی گنجائش ہے اور ایک صف میں بمشکل 5 مصلی ہی ٹھہر سکتے ہیں۔ اگر آپ ذہن پر تھوڑا سا زور دیں گے تو واقعی آپ بھی یہ سوچنے لگیں گے کہ اس سے چھوٹی بھی کوئی مسجد ہوسکتی ہے۔ جہاں تک ہماری معلومات ہیں اس سے چھوٹی تو کوئی مسجد نہیں ہے مگر بھوپال میں واقع ڈھائی سیڑھی کی مسجد کو دنیا کی سب سے چھوٹی مسجد تصور کیا جاتا ہے۔ رقبہ کے اعتبارسے دیکھا جائے تو حیدرآباد میں پائی جانے والی یہ مسجد بھوپال کی مسجد سے صرف آدھی ہے۔اس مسجد کے سیدھی جانب سیڑھیاں بھی جس کے ذریعہ اوپر جایا جاسکتا ہے۔ اوپر ایک منڈیر بنا ہوا ہے، جہاں سے شائداذاں دی جاتی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ مسجد حضرت سید شاہ عماد الدین محمد محمود الحسینی نے ہی تعمیر کروایا جنہوں نے عبداللہ قطب شاہ کے زمانہ میں عراق سے حیدرآباد آمد کے بعد میر عالم تالاب کے ایک جانب واقع ایک پرسکون پہاڑی کو اپنا مسکن بنالیا تھا۔ وہ دراصل عراق کے رہنے والے تھے مگر اپنے پیر کے حکم کی تعمیل میں حیدرآباد کا رخ کیا اور اس پہاڑی کو منتخب کیا جہاں ان کی آخری آرام گاہ ہے۔ حضرت محمود الحسینی ؒ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی حیات میں ہی اپنی آخری آرام گاہ تعمیر کروالی تھی اور اس کی تعمیر کے لئے انہوں نے مزدوروں کو جو معاوضہ دیا کرتے تھے وہ اس وقت کے بادشاہ کی جانب سے مزدوروں کو دئیے جانے والے معاوضہ سے دوگنا ہوا کرتا تھا۔ بتایا جاتا ہیکہ وہ حاملہ خواتین کو بھی دوگنا معاوضہ دیا کرتے تھے۔ اس مسجد کے بارے میں ہمیں تاریخ میں کوئی مواد تو نہیں ملتا ہے مگر یہ سمجھتا جاتا ہے کہ اس مسجد کو بھی آپ ہی نے تعمیر کروایا تھا۔ طرز تعمیر اور حضرت کے زمانہ کے اعتبار سے اتنا تو کہا جاسکتا ہے کہ یہ قطب شاہی دور کی مسجد ہے۔مقامی لوگوں میں یہ بات مشہور ہے کہ یہ مسجد جنوں کی ہے۔ شائد یہ وجہ ہے کہ درگاہ کے اطراف آبادی بڑھ جانے کے باوجود بھی انسان اس مسجد میں نماز ادا کرنے سے گھبراتے ہیں۔ اگرچہ درگاہ کے احاطہ میں ایک حصہ کو مسجد میں تبدیل کردیا گیا ہے مگر اس مسجد کو آباد کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ متولی کی بھی عدم دلچسپی کے باعث یہ مسجد ایک کھنڈر میں تبدیل ہوکر رہ گئی اس کے باوجود اگر تھوڑی سی مرمت کردی جائے تو یہ مسجد کئی برس تک صحیح وسالم رہ سکتی ہے۔ ماہر آثار قدیمہ جناب محمد صفی اللہ نے بتایا کہ ہماری یہ کوشش ہے کہ اس مسجد کو دنیا کی سب سے چھوٹی مسجد کا درجہ دلایا جائے۔ اس خصوص میں ان کے ایک دوست حسیب جعفری کی نگرانی میں اس مسجد کی پیمائش کی جارہی ہے تاکہ اس مسجد کو دنیا کی سب سے چھوٹی مسجد ہونے کادرجہ حاصل کیا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ حال ہی میں انہوں نے بھوپال کا دورہ کیا تھا تاکہ حیدرآباد کی اس مسجد کا بھوپال کی اس مسجد سے موازنہ کیا جائے جسے اب تک دنیا کی سب سے چھوٹی مسجد سمجھا گیا ہے۔ مسٹر صفی اللہ نے کہا کہ حیدرآباد کی یہ مسجد حقیقت میں بھوپال کی مسجد سے چھوٹی ہے۔ انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ جب ہم اس مسجد کے حدود اربعہ پیش کردیں گے تو دنیا یہ تسلیم کرلے گی کہ واقعی حیدرآباد کی اس مسجد سے چھوٹی مسجد کوئی اور نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ترکی والے بھی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے پاس بھی دنیا کی سب سے چھوٹی مسجد ہے جس میں امام کے علاوہ صرف دو لوگ ہی نماز ادا کرسکتے ہیں مگر کوئی بھی اس کو مسجد تسلیم نہیں کرتا چونکہ صرف دو لوگوں کے لئے بنائی گئی جگہ کو مسجد کہنا درست نہیں ہے۔ انہوں نے حکومت تلنگانہ سے بھی خواہش کی کہ اس مسجد کی نگہداشت کے اقدامات کئے جائیں چونکہ جب اس مسجد کو دنیا کی سب سے چھوٹی مسجد کا درجہ مل جائے گا تو اس کا مشاہدہ و نظارہ کرنے کے لئے دنیا کے کونے کونے سے لوگ آنے لگیں گے۔