متوفی ذہنی دباؤ کا شکار تھا ، پولیس کا دعویٰ ، کوئی خود کشی نوٹ برآمد نہیں ہوا ۔ لیاپ ٹاپ اور تحریری نوٹ کا فارنسک معائنہ
حیدرآباد ۔ 17 ۔ ستمبر : ( سیاست نیوز / پی ٹی آئی ) : حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی میں فائن آرٹس کے ایک طالب علم نے آج رات کے پچھلے پہر اپنے ہاسٹل روم میں بظاہر ذہنی دباؤ کے نتیجہ میں خود کشی کرلی ۔ واضح رہے کہ رواں سال کے اوائل میں پی ایچ ڈی کے ایک دلت ریسرچ اسکالر روہت ویمولہ کی خود کشی کے سبب یہ یونیورسٹی طلبہ کے احتجاج سے ہل گئی تھی ۔ مادھا پور کے ڈپٹی کمشنر پولیس کارتکیہ نے اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ تقریبا 25 سالہ نیلی پراوین کمار سروجنی نائیڈو اسکول آف آرٹس اینڈ کمیونیکیشن کے شعبہ فنون لطیفہ میں ماسٹر آف فائن آرٹس ( ایم ایف اے ) کورس کے پہلے سمسٹر میں زیر تعلیم تھا ۔ وہ ہفتہ کی صبح 4-15 اپنے ہاسٹل روم کی چھت سے لٹکتا ہوا پایا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ دستیاب اطلاعات کے مطابق پراوین کا تعلق درج فہرست طبقات سے ہے ۔ اس کے کمرہ میں مقیم ایک ساتھی طالب علم ایم راج نے بتایا کہ وہ مصوری کے اسٹوڈیو سے رات دیر گئے واپس ہوا اور اپنا کمرہ اندر سے بند پایا ۔ کئی مرتبہ کھٹکھٹانے کے باوجود کوئی جواب نہیں ملا اور پراوین نے دروازہ نہیں کھولا ۔ چنانچہ اس نے اپنے روم کے ساتھیوں اور دیگر طلبہ کو چوکس کردیا ۔ بعد ازاں دھکہ دیتے ہوئے دروازہ کھولا گیا اور پراوین کو چھت سے لٹکتا ہوا پایا گیا ۔ اس کو فی الفور یونیورسٹی کے ہیلت سنٹر کو منتقل کیا گیا جہاں ایک میڈیکل افسر کی جانب سے ابتدائی معائنہ کے بعد اس کو ایک خانگی ہاسپٹل منتقل کیا گیا ۔ جہاں ڈاکٹروں نے بعد معائنہ پراوین کو مردہ قرار دیا ۔ واقعہ کی اطلاع ملتے ہی پولیس وہاں پہنچ گئی ۔ اس کی ایک ٹیم ہاسٹل روم روانہ ہوئی جہاں بعد تلاشی ایک لیاپ ٹاپ ، ایک ٹیبلٹ ، دو سیل فونس اور دو نوٹ بکس برآمد کئے گئے ۔ ڈی سی پی نے کہا کہ ایک نوٹ بک میں ایک نوٹ دستیاب ہوا جو باور کیا جاتا ہے کہ متوفی نے تحریر کیا تھا ۔ تقابلی جائزہ کے لیے اس نوٹ کو فارنسک لیبارٹری روانہ کیا گیا ہے ۔ نوٹ کی تفصیلات سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پراوین ذہنی دباؤ کا شکار تھا اور غالبا وہ خود اپنی کارکردگی کا تقابل کررہا تھا ۔ یونیورسٹی آف حیدرآباد کے پرو وائس چانسلر این سریواستوا نے کہا کہ پراوین کو دیڑھ ماہ قبل ایم ایف اے کورس میں داخلہ دیا گیا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ ’ اس ( خود کشی کے ) واقعہ پر افسوس ہے ۔ ہم نہیں جانتے کہ اس کے انتہائی قدم اٹھانے کی وجہ کیا تھی ۔ بہرحال اس واقعہ سے ہم سب کو سخت صدمہ پہونچا ہے ۔ تعلیم میں وہ ٹھیک تھا اور اس نے کبھی بھی کسی ذہنی تناؤ کا اظہار نہیں کیا تھا ۔ پولیس نے تعزیری قانون کی دفعہ 174 ( غیر طبعی موت ) کے تحت ایک مقدمہ درج کرلیا ہے ۔ ضلع محبوب نگر کے شاد نگر سے تعلق رکھنے والے اس طالب علم نے گذشتہ روز کلاس میں حاضری دی تھی یو این آئی کے مطابق پولیس نے کہا کہ کوئی خود کشی نوٹ نہیں ملا ہے تاہم ہاتھ سے لکھی دو تحریریں پولیس کو ملی ہیں جن کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس نے ذہنی تناؤ کے سبب خود کشی کی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس طالب علم نے یہ لکھا ہے کہ وہ ناخوش ہے اور تعلیم میں بہتر مظاہرہ نہ کرپانے پر وہ خود کو بے یار و مددگار سمجھ رہا ہے ۔ اس نے تلگو زبان میں لکھے گئے نوٹ میں کہا ’ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ میں کچھ بھی کیوں نہیں کرسکتا ۔ میں خوفزدہ کیوں ہوں ۔ کئی ایسے لوگ ہیں جو غیر تعلیم یافتہ ہیں لیکن وہ خوش ہیں ۔ میں یہ سمجھ نہیں پارہا ہوں کہ میں خوش کیوں نہیں رہ سکتا ‘ ۔۔