حیدرآباد کی شہزادی نیلوفر

بہت پہلے اگر کسی ہندوستانی خواتین کو مس ورلڈ کا خطاب ملا ہوتا تو وہ ہندوستان کی تین شہزادیاں تھیں جنہیں دنیا کی انتہائی خوبصورت خواتین سمجھا گیا تھا ۔ یہ شہزادیاں تھیں ۔ جئے پور کی مہارانی گائیتری دیوی ، برار کی شہزادی درشہوار اور حیدرآباد کی شہزادی نیلوفر ، شہزادی نیلوفر کی کہانی حیرت انگیز اور موہ لینے والی ہے ۔ وہ اس وقت سایہ پدری سے محروم ہوگئیں جب ان کی عمر صرف دو سال تھی ۔ جب وہ آٹھ سال کی ہوئیں تو ترکی کے شاہی خاندان کو جلا وطن کردیا گیا ۔ وہ جنوبی فرانس میں نائس چلے گئے ۔ زندگی گذارنے کے لیے کوئی آمدنی نہ ہونے سے یہ پورے شاہی خاندان کا انحصار نظام آف حیدرآباد سے انہیں حاصل ہونے والے پنشن پر منحصر ہوگیا تھا ۔ اس وقت ٹائم میگزین کے اندازہ کے مطابق نظام دنیا کے امیر ترین آدمی تھے ۔ چند سال بعد آخری ترک خلیفہ کی دختر کے ساتھ نظام کے بڑے فرزند کی شادی کی تجویز رکھی گئی ۔ بات چیت کے دوران نظام نے اس بات کو محسوس کیا کہ ترکی والے بہت زیادہ مہر کی بات کررہے ہیں اور مشکل شرائط عائد کررہے ہیں ۔ اس پرپوزل کو پورا کرنے کے سلسلہ میں شہزادی نیلوفر کی شادی نظام کے چھوٹے فرزند سے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ اس طرح 1931 میں حیدرآباد کے شاہی خاندان میں ترکی کی دو دلہنیں شامل ہوئیں ۔ درشہوار اور نیلوفر ۔ شادی کے وقت شہزادی نیلوفر کی عمر صرف 15 سال تھی ۔ چند ہفتوں کے بعد یہ دو شہزادیاں درشہوار اور نیلوفر ہندوستان کے لیے سمندری سفر اختیار کیا ۔ راستے میں انہیں سکھایا گیا کہ ساڑی کس طرح پہننا ہے اور نظام کی موجودگی کس طرح اخلاقیات کو ملحوظ رکھنا چاہیے ۔ ممبئی پہنچنے کے بعد وہ نظام حیدرآباد کی خانگی ٹرین میں سوار ہو کر حیدرآباد پہنچیں ۔ ٹرین جب حیدرآباد اسٹیشن پر پہنچی تو نیلوفر پر جو بہت آہستہ سے ٹرین سے قدم نکالی تھیں ، تمام نگاہیں ان پر تھیں۔ نیلوفر ان کے شوہر کے ساتھ ہل فورٹ میں چلی گئیں ۔ان کے شوہر اردو کے ایک شاعر تھے ۔ وہ تقریبا ہر شام ایک مشاعرہ کا اہتمام کرتے تھے ۔ وہ ایک شاہانہ طرز زندگی گزارتے تھے ۔ زندگی بہت آرام دہ دکھائی دیتی تھی اور نظام کی سلطنت میں سب کچھ ٹھیک تھا ۔ سال گذرنے کے ساتھ درشہوار کو ایک لڑکا تولد ہوا ، مکرم جاہ ۔ لیکن کئی سال گذرنے کے بعد بھی نیلوفر کو کوئی اولاد نہیں ہوئی ۔ انہوں نے یوروپ میں کئی ڈاکٹروں سے اس سلسلہ میں صلاح و مشورہ کیا اور میڈیکل ویزٹ کے لیے امریکہ جانے کا منصوبہ بنارہی تھیں ۔ اس کے دوران ان کی ایک خادمہ رخصت النساء بچہ کی پیدائش کے دوران فوت ہوگئی ۔ اس وقت بچوں اور ماؤں کے لیے کوئی اسپیشلائزڈ ہاسپٹل نہیں تھا ۔ چنانچہ شہزادی نیلوفر نے اس طرح کا ایک دواخانہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ۔ اس طرح حیدرآباد میں موجود نیلوفر ہاسپٹل شہزادی نیلوفر کی جانب سے تعمیر کیا گیا دواخانہ ہے ۔ بچے نہ ہونے سے ان کی خانگی زندگی خالی رہی ۔ دوسری طرف ان کی عوامی زندگی بہت تابناک ہوگئی ۔ انہیں کئی تقاریب میں مدعو کیا جاتا تھا اور خواتین کے کاز کے لیے قائدانہ رول ادا کرتی تھیں ۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران وہ ایک نرس کے طور پر ٹریننگ حاصل کیں اور ریلیف کاموں میں مدد کی ۔ ان کی خوبصورتی اور ان کی سرگرم عوامی زندگی کا پریس میں تذکرہ کیا گیا اور میگزینس کے کور پیجس پر بار بار نمایاں کیا گیا ۔ انہیں دنیا کی 10 انتہائی خوبصورت خواتین میں ایک قرار دیا گیا اور فلموں میں کئی رولز کی پیشکش کی گئی ۔ شہزادی نیلوفر کا انداز عوام کے لیے پرکشش ہوتا اور میڈیا کی توجہ کا باعث ہوتا ۔ وہ بمبئی کے ڈیزائنر مادھا وڈاس کی تیار کردہ خصوصی ساڑیاں زیب تن کرتی تھیں ۔ 1947 میں جب ہندوستان آزاد ہوا تو نیلوفر کا ایک خاص موقف تھا ۔ حیدرآباد کو ابھی انڈین یونین میں شامل ہونے کے بارے میں فیصلہ کرنا تھا ۔ نظام پس و پیش میں کبھی آزاد رہنا چاہتے تھے اور کبھی ہندوستان میں شمولیت کے خواہاں تھے ۔ آخر کار حیدرآباد انڈین یونین میں ضم ہوگیا ۔ جب ہندوستانی فوج نے پولیس ایکشن کیا تھا تو اس وقت نظام ریاست کے سربراہ تو برقرار تھے لیکن ان کا وہ سابقہ موقف نہیں تھا ۔ شہزادی نیلوفر نے جب فرانس میں سفر کے دوران حیدرآباد کی تباہی کے بارے میں سنا تو انہوں نے پھر کبھی ہندوستان واپس نہ ہونے کا فیصلہ کیا ۔ کچھ عرصہ بعد ان کی شادی ختم ہوگئی ۔ اور وہ ان کی والدہ کے ساتھ پیرس میں ایک فلیٹ میں رہیں ۔ چونکہ ان کی عمر صرف 36 سال تھی اس لیے وہ اپنے میں کشش رکھتی تھیں اور کشش کا باعث تھیں ۔ ان کے دوستوں میں تھے علی خان ( آغا خان کے فرزند ) ، دی ڈیوک آف ونڈسسر ، بڑودہ کی شہزادی سیتا ، فلم اسٹارس جیسے مارائس چیوالائر اور آلیویا ڈی ہاویلینڈ ۔ انہیں ہالی ووڈ فلم (Moulin Rouge) میں ایک اور رول کی پیشکش کی گئی تھی ۔ لیکن انہوں نے پھر اس کو مسترد کردیا ۔ شہزادی نیلوفر کا 1989 میں پیرس میں انتقال ہوگیا ۔ بابگنیی علاقہ میں Cimetiere Musulman میں ان کی تدفین کی گئی ۔ ان کی قبر ان کی والدہ کے بازو میں ہے ۔ آج نیلوفر کا یوم پیدائش ہے اور اس موقع پر نیلوفر ہاسپٹل میں پھل تقسیم کئے جائیں گے ۔۔
( بہ شکریہ اروندآچاریہ ، امریکہ )