حیدرآباد: 2007ء میں ہوئے مکہ مسجد بم دھماکوں کے بعد بڑی تعداد میں مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں عمل میںآئی ۔ بد قسمتی سے ان نوجوانوں میں سید کلیم بھی تھے جنہیں پولیس گرفتار کیا تھا ۔ کلیم نے تین سال تک جیل کی صعوبتیں برداشت کیں ۔ جب مکہ مسجد کے بم دھماکو ں کی تفتیش کیس کے دوران سوامی اسیمانند کو حیدرآباد لایا گیا تھا اس وقت کلیم نے اس سے ملاقات کی تھی ۔ بعد ازاں سوامی اسیما نند نے کلیم کے بارے میں بتایا تھا کہ اس کو کس طرح اذیتیں دی گئی تھیں ۔ کلیم کے ساتھ ملاقات کے بعد سوامی اسیمانند نے اقبال جرم کیا ۔بعد ازاں کلیم کو عدالت نے ضمانت پر رہا کردیا ۔ جیل سے رہا ہونے کے بعد کلیم نے بتایاکہ اخبارات کے ذریعہ اس کو پتہ چلا کہ سوامی اسیمانند کو مکہ مسجد بم دھماکوں کے معاملہ میں گرفتار کیاگیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سوامی اسیمانند مختصر مدت کے لئے جیل میں تھے تو میں نے اس سے ملاقات کرنے کی خواہش ظاہر کی ۔ کلیم نے سوامی اسیمانند کو بتایا کہ میری طرح کئی نوجوان حیدرآباد و دیگر جیلو ں میں محروس ہیں ۔ کلیم نے بتایا کہ اس کے بڑے بھائی بھی جیل میں بے قصور قید ہیں ۔ کلیم نے بتایا تھا کہ سوامی اسیمانند نے کہا تھا کہ میں اپنے کئے پر شرمندہ ہوں کہ وجہ سے بے قصور نوجوان پریشانیوں کا شکا رہیں ۔اس موقع پر سوامی نے کلیم سے معافی مانگی اس پر کلیم نے کہا کہ مجھ سے معافی مانگنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ان معصوموں سے معافی مانگنی چاہئے جن کے بچے او ر گھر ان بم دھماکو ں میں ہلاک ہوئے او ران نوجوانو ں سے معافی مانگنی چاہئے جو نوجوان بلا وجہ گرفتار ہوگئے ۔
سوامی اسیمانند سیدکلیم کی باتوں سے بیحد متاثر ہوا اور کہا کہ میں سب نوجوانوں سے معافی مانگوں گا جنہیں میری طرف سے تکالیف کاسامنا کرنا پڑا ۔ سوامی نے مزید کہا کہ میں متاثرین کی مدد کروں گا او راگر میں وصیت کروں گا کہ اگر میں جیل میں ہی مرگیاتو میرے اعضاء کو فروخت کردیاجائے او راس سے ہونے والی آمدنی بم دھماکوں میں مرنے والوں کے ورثاء کو دیا جائے ۔ کلیم نے بتایا کہ میں سوامی اسیمانند سے چار مرتبہ ملاقات کیا ہوں ۔ اس دوران ہم نے ایک ساتھ کھانا اور چائے بسکٹ بھی کھائے ۔ کلیم نے یہ جاننے کی بھی کوشش کی کہ اس جرم میں ان کے ساتھ او رکون کون شامل تھے لیکن سوامی نے اس تعلق سے کچھ نہیں بتایا ۔ سوامی اسیمانند سید کلیم سے بیحد متاثر ہوئے۔ کلیم نے مزید بتایا کہ ایک مرتبہ جب سوامی اسمانند سی بی آئی کی حراست سے واپس آئے تو انہوں نے مجھے بتایا کہ میں اقبالیہ بیان دے دیا ہے اور اپنے گناہوں کا اعتراف بھی کرلیا ہے ۔ انہوں نے کہا تھا کہ اب کسی بھی معصوم کو اس کیس میں پریشان نہیں کیاجائے گا ۔