حکومت پر گاؤ دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کا الزام

’ہندوستان کو لِنچستان بننے کی اجازت نہ دی جائے ،ہجومی تشدد پر لوک سبھا میں بحث ، کانگریس اور بائیں بازو جماعتوں کا واک آؤٹ
نئی دہلی ۔ 31 ۔ جولائی (سیاست ڈاٹ کام) ہجومی تشدد کے مسئلہ پر آج لوک سبھا میں الزامات و جوابی الزامات کا سلسلہ جاری رہا ، جہاں کانگریس نے کہا کہ ’’ہندوستان‘‘ کو ’’لِنچستان‘‘ بننے نہیں دیا جانا چاہئے ۔ حکومت نے اپوزیشن پر سیکولرازم کے نام پر ڈرامہ کرنے کا الزام عائد کیا جس کا مقصد وزیراعظم نریندر مودی کو بدنام کرنا ہے۔ حکومت نے کہا کہ ہجومی تشدد یا اسی نوعیت کا کوئی بھی واقعہ قابل قبول نہیں ہوسکتا۔ وزیراعظم نے خود کئی مرتبہ ان واقعات کی مذمت کی اورانہیں جرائم کی بدترین شکل قرار دیا۔ آج ایوان میں ہجومی تشدد کے مسئلہ پر جیسے ہی بحث شروع ہوئی ، منسٹر آف اسٹیٹ داخلہ کرن رجیجو نے کہا کہ اس طرح کے جرائم سے نمٹنا ریاستی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ جہاں تک مرکز کا تعلق ہے ، اس ضمن میں واضح ہدایات جاری کی گئی۔ انہوں نے مباحث کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ مرکز کیلئے یہ کس طرح ممکن ہوگا کہ وہ ریاستی حکومت کے امور مداخلت کرے؟ کیا اپوزیشن یہ چاہتی ہے کہ وزیراعظم وفاقی ڈھانچہ کو ختم کریں اور ساری ذمہ داری مرکز خود سنبھال لے۔ کانگریس ، بائیں بازو جماعتیں اور ایم آئی ایم نے وزیر کے جواب پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے ایوان سے واک آؤٹ کردیا۔ ہجومی تشدد اور مظالم کے واقعات پر بحث کے دوران تمام سیاسی جماعتوں کے ارکان نے گائے کے نام پر ہلاکتوں کی مذمت کی۔اپوزیشن جماعتوں نے بی جے پی زیر قیادت حکومت پر گاؤ دہشت گردوں کے تشدد میں ملوث تنظیموں کی حوصلہ افزائی کرنے کا الزام عائد کیا اور کانگریس نے دعویٰ کیا کہ بی جے پی کے اقتدار سنبھالنے کے بعدہی مذہب اور گاؤ رکھشا کے نام پر ہجومی تشدد میں افراد کو مار مار کر ہلاک کرنے کے واقعات شروع ہوگئے ہیں۔ ہجومی تشدد میں افراد کو زد و کوب کے ذریعہ ہلاک کرنے کے واقعات پر لوک سبھا میں بحث کا آغاز کرتے ہوئے کانگریس کے لیڈر ملکارجن کھرگے نے کہا کہ ہندوستان کو لنچستان بننے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے ۔ ہجومی تشدد کو انگریزی زبان میں لنچنگ کہا جاتا ہے ۔ کھرگے نے الزام عائد کیا کہ یہ حکومت اقلیتوں ، دلتوں اور خواتین کی مخالف ہے اور کہا کہ یہی تین طبقات، جنونی ہجوم کے تشدد کا بدترین نشانہ بن رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کہتے ہیں کہ وہ اس (ہجومی تشدد) کے خلاف ہیں تو پھر ان واقعات پر انہوں نے کیا کارروائی کی ہے ۔ کھرگے نے کہا کہ ’’وہ و(وزیراعظم) کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں‘‘۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان واقعات کے ملزمین کے خلاف کی گئی کارروائی کی تفصیلات پیش کی جائیں اور دعویٰ کیا کہ عدم کارروائی کی وجہ وہ (ملزمین) بے خوف ہوگئے ہیں ۔ انہوں نے رواں سال پیش آئے واقعات کی تفصیل پیش کرتے ہوئے کہا کہ اکثر بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں میں ہی ہجوم کے ہاتھوں افراد کو زد و کوب میں ہلاک کرنے کے واقعات پیش آئے ہیں، جس کے نتیجہ میں ملک بھر میں خوف و دہشت کا ماحول ہے اور ساری دنیا میں ہندوستان کی بدنامی ہورہی ہے ۔ کھرگے نے کہا کہ وی ایچ پی اور بجرنگ دل جیسی ہندوتوا تنظیمیں اس قسم کے تشدد میں ملوث ہیں۔ کانگریس کے سینئر لیڈر کھرگے نے ان ہندوتوا تنظیموں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب اس لئے کیا جارہا ہے کہ ملک میں آپ (بی جے پی / ہندوتوا) کا نظریہ اور فلسفہ نافذ کیا جائے ‘‘۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی کے زیر اقتدار جھارکھنڈ اور مدھیہ پردیش ہجوم کے تشدد کے مراکز بن گئے ہیں ۔ اس قسم کے واقعات قومی یکجہتی کیلئے سنگین خطرہ بن گئے ہیں۔ کیرالا میں بی جے پی کے ایک کارکن کی ہلاکت کا تذ کرہ کرتے ہوئے کھرگے نے کہا کہ گورنر نے اس مسئلہ پر ڈی جی پی کو طلب کیا لیکن دیگر ریاستوں میں جہاں ہجوم تشدد میں افراد کو نشانہ بنایا گیا اس قسم کی کارروائی نہیں کی گئی ۔ کھرگے کی جانب سے بعض واقعات کی نشاندہی پر بی جے پی ارکان نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ایسے واقعات کا تذکرہ کیا ہے جوکہ عدالتوں میں زیر تصفیہ ہیں۔ وزیر پارلیمانی امور اننت کمار نے کھرگے کی جانب سے نائب صدر جمہوریہ کی ایک نظریہ کا حوالہ دیئے جانے پر بھی اعتراض کیا اور کہا کہ یہ قواعد کے خلاف ہے ۔ اننت کمار نے کہا کہ گاؤ رکھشا کے نام پر غنڈہ گردی کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے ۔ حکومت کے خلاف کھرگے کی سخت تنقیدوں کا جواب دیتے ہوئے بی جے پی لیڈر نارائن یادو نے ہجومی تشدد کے واقعات پر این ڈی اے حکومت کو نشانہ بنائے جانے پر اپوزیشن کی مذمت کی اور کہا کہ وزیراعظم نریندر مودی بارہا مرتبہ اس قسم کی سرگرمیوں کے خلاف سخت کارروائی کا انتباہ دے چکے ہیں۔ یادو نے کہا کہ بعض افراد حکومت کو بدنام کرنے کیلئے دہشت گردی میں ملوث ہورہے ہیں اور وہ ہمارے ارادوں کے بارے میں سوال کر رہے ہیں، یہ غلط ہے ۔ یادو نے کیرالا میں بی جے پی ورکر اور جموں و کشمیر میں پولیس افسر کی ہلاکت کو بھی پرتشدد ہجوم کے ہاتھوں افراد کی ہلاکت کے واقعات کے مماثل قرار دیا ہے اور دریافت کیا کہ کیا یہ واقعات پرتشدد ہجوم کے تشدد کا نتیجہ نہیں تھے ۔