حکومت ‘ مسلمانوں کو تحفظات فراہم کرنے کی پابند

اقلیتی اداروں کی مخلوعہ جائیدادوں پر تقررات کا تیقن ، ڈپٹی چیف منسٹر محمد محمود علی کا بیان

حیدرآباد ۔ 22 ۔مارچ (سیاست نیوز) تلنگانہ حکومت مسلمانوں کو تحفظات کی فراہمی کے عہد کی پابند ہے اور 12 فیصد تحفظات پر عمل آوری کیلئے ہر ممکن اقدامات کئے جائیں گے۔ ڈپٹی چیف منسٹر محمد محمود علی نے آج اسمبلی میں محکمہ اقلیتی بہبود کے مطالبات زر پر مباحث کا جواب دیتے ہوئے تحفظات کے سلسلہ میں حکومت کے موقف کی وضاحت کی۔انہوں نے کہا کہ چیف منسٹر اس مسئلہ پر سنجیدہ ہیں اور انہوں نے ہر سطح پر تحفظات کے حق میں مساعی کی جس کی مثال سابق میں نہیں ملتی ۔ انہوں نے کہا کہ اسمبلی و کونسل میں بل منظور کرکے مرکز کو روانہ کیا گیا ۔ مرکز کی جانب سے فیصلہ میں تاخیر کے سبب ٹی آر ایس کے ایم پیز دونوں ایوانوں میں احتجاج کر رہے ہیں اور تحفظات کے اختیارات ریاستوں کو سونپنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کے سی آر وعدوں کی تکمیل میں سنجیدہ ہیں اور تحفظات کے عہد پر بہر صورت عمل کریں گے۔ محمود علی نے کہا کہ تلنگانہ اقلیتوں کی ہمہ جہتی ترقی میں ملک میں سرفہرست ہے۔ اقلیتی بہبود کا بجٹ اور اسکیمات دونوں معاملات میں تلنگانہ کو ملک بھر میں امتیازی مقام حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1994 ء میں اقلیتی بہبود کا بجٹ صرف ایک کروڑ تھا لیکن گزشتہ چار برسوں میں کے سی آر نے بجٹ کو 2000 کروڑ تک پہنچا دیا۔ ڈپٹی چیف منسٹر نے کہا کہ اگرچہ بعض دیگر ریاستوں میں مسلمانوں کی آبادی تلنگانہ سے زیادہ ہے لیکن بجٹ کے معاملہ میں وہ تلنگانہ سے کافی پیچھے ہیں۔ دیگر طبقات کی طرح اقلیتوں کی ترقی چیف منسٹر کی ترجیحات میں شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی قوم کی ترقی کیلئے تعلیم اور زبان کا تحفظ ضروری ہے ۔ چیف منسٹر نے اقلیتوں کی تعلیمی ترقی کیلئے 204 اقامتی اسکولس قائم کئے ہیں اور یہ اقدام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ اقامتی اسکولوں کیلئے 735 کروڑ روپئے مختص کئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ اردو کی ترقی اور فروغ کیلئے ریاست بھر میں اسے دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا۔ فیس بازادائیگی کیلئے 248 کروڑ اور اسکالر شپ کیلئے 100 کروڑ مختص کئے گئے ہیں۔ ٹریننگ ایمپلائیمنٹ کے تحت 15 کروڑ کے ذریعہ تمام اضلاع میں اقلیتی امیدواروں کو پیشہ ورانہ کورسس میں ٹریننگ دی جائیگی۔ محمود علی نے کہا کہ حکومت ایس سی ، ایس ٹی طبقات کے مماثل اقلیتوں کو تعلیمی اور دیگر مراعات فراہم کر رہی ہے ۔ اوورسیز اسکالرشپ اسکیم کے ذریعہ غریب طبقات کے ذہین طلبہ کو بیرون ممالک میں تعلیم کے حصول کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔

 

اسکیم کے تحت 10 لاکھ روپئے کی تعلیمی امداد دی جاتی تھی ، جسے بڑھاکر 20 لاکھ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 204 اقامتی اسکولوں میں کارپوریٹ طرز کی تعلیم مفت فراہم کی جا رہی ہے۔ اسکولوں میں غذا اور دیگر بنیادی سہولتیں فراہم کی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ اقامتی اسکولوں کیلئے مختص کردہ بجٹ بہتر طور پر خرچ کیا جائیگا۔ شادی مبارک کو منفرد اسکیم قرار دیتے ہوئے ڈپٹی چیف منسٹر نے کہاکہ کانگریس دور میں اجتماعی شادیوں کا اہتمام کیا جاتا تھا اور معمولی رقم کی ضروری اشیا دی جاتی تھی۔ کے سی آر نے امدادی رقم راست بینک اکاؤنٹ میں جمع کرانے کی ہدایت دی اور شادی مبارک اسکیم کا 51,000 روپئے سے آغاز کیا گیا جو بڑھ کر ایک لاکھ 116 روپئے ہوچکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امدادی رقم میں اضافہ کا مقصد غریب لڑکی والوں کی ضرورتوں کی تکمیل کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ہر اسمبلی حلقہ میں شادی خانہ کی تعمیر کا منصوبہ رکھتی ہے۔ شادی مبارک اسکیم کے تحت 4 برسوں میں 87,000 خاندانوں کو امداد فراہم کی گئی ۔ بجٹ میں اس اسکیم کیلئے 200 کروڑ روپئے مختص کئے گئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ کے سی آر نے حیدرآباد کو گنگا جمنی تہذیب کے مرکز میں تبدیل کردیا ہے اور امن و ضبط کی صورتحال مکمل طور پر قابو میں ہے۔ انہوں نے کہاکہ اردو کے فروغ کیلئے اکیڈیمی کو 40 کروڑ بجٹ مختص کیا گیا۔ حکومت اوقافی اراضیات کے تحفظ میں سنجیدہ ہے۔ ریونیو سروے میں 45,000 ایکر اوقافی اراضی کا پتہ چلا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وقف بورڈ کو 80 کروڑ روپئے گرانٹ منظور کی گئی ہے ۔ ائمہ اور مؤذنین کو ماہانہ اعزازیہ فی کس 1500 روپئے ادا کیا جارہا ہے ۔ محمود علی نے کہا کہ صنعتوں کے قیام کے سلسلہ میں اقلیتوں کی مدد کی جائیگی ۔ اس کے علاوہ چھوٹے کاروبار کے آغاز کیلئے 80 فیصد سبسیڈی فراہم کی جارہی ہے۔ اسلامک کنونشن سنٹر کیلئے کوکاپیٹ میں 10 ایکر اراضی مختص کی گئی جس پر 40 کروڑ سے اسلامک سنٹر تعمیر کیا جائیگا۔ کرسچن بھون کیلئے 29 کروڑ اور سکھ بھون کیلئے 7 کروڑ مختص کئے گئے ۔ انیس الغرباء کیلئے حکومت نے 4100 گز اراضی مختص کی ہے اور 20 کروڑ سے ہمہ منزلہ کامپلکس تعمیر کیا جائیگا۔ جامعہ نظامیہ میں عصری آڈیٹوریم کی تعمیر کیلئے 14.60 کروڑ مختص کئے گئے ۔ انہوں نے کہا کہ سابقہ حکومتوں نے اقلیتوں کی ترقی کو نظر انداز کردیا تھا لیکن کے سی آر اقلیتوں کو ہر شعبہ میں دیگر طبقات کے مماثل ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ محمود علی نے اقلیتی اداروں کی مخلوعہ جائیدادوں پر تقررات کا تیقن دیا۔