کیا ایک کامیاب شخص کی کامیابی اس گروپ کے ساتھ تعصب کو کم کرسکتی ہے۔
مذکورہ مصر اور لیور پول فٹبال کلب کے کھلاڑی محمد صلاح نہ صرف لیورپول کے روایتی سفید فام مداحوں کی پسندبن گئے ہیں بلکہ وہ اس نعرے کا سبب بنے ہیں جس میں کہاجارہا ہے کہ ”اگر وہ کچھ اور اسکور کرتے ہیں‘ تو پھر میں بھی مسلم ہوجاؤں گا‘ اور پھر مسجد میں جہا ں چاہئے وہاں بیٹھوں گا“۔
صلاح کی یہ غیر معمولی مقبولیت اسٹین فورڈ یونیورسٹی کے ایمگریشن پالیسی لیاب کے محققین کے ذہنوں میں سوال کا سبب بن رہے ہیں کہ‘کیا ایک کامیاب شخص کی کامیابی اس گروپ کے ساتھ تعصب کو کم کرسکتی ہے؟۔
ان کی رائے میں ایسا ہوسکتا ہے۔ اس کا جائزہ لینے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ صلاح کی موجودگی لیورپول کے مداحوں میں عام طو ر پر پائے جانے والے اسلافوبیا کو کم کررہی ہے۔ مذکورہ محققین نے تین زوایوں کا خلاصہ کیاجس کی وجہہ سے وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں۔
پہلا صلاح کے لیور پول کے لئے سائن کرنے کے بعد میرسیسائنڈ (جہاں پر لیور پول کا قیام ہے) وہاں نفرت پر مشتمل جرائم میں 18.9فیصد کی کمی ائی ہے۔ حالانکہ دیگر ممالک میں اس میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔
دوسرا صلاح کے سائن کرنے کے بعد نفرت پر مشتمل ٹوئٹس کو انگلش پریمیر لیگ کے میاچوں کے دوران مداحوں اور دیگر ٹیموں کے حوالے مخالف مسلم ہوا کرتے تھے اس میں 53.2فیصد کی کمی ائی ہے۔
بالآخر انہوں نے ایک تجرباتی سروے8060لیور پول مداحوں پر کیا۔ اس سے یہ نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ صلاح نے اسلام کے ساتھ جو متعصبانہ رویہ تھا اس کو اپنے کھیل سے کم کیاہے۔ رپورٹ میں بھی ان باتو ں کا حوالہ دیاگیاہے