برلن ۔ 26 اگست (سیاست ڈاٹ کام) فلسطینی پناہ گزین 48 سالہ خاتون جو ایک جرمن میئر کے دفتر میں انٹرن کی حیثیت سے کام کررہی تھی، اپنی ملازمت کے پہلے دن ہی برطرف کردی گئی کیونکہ اس نے اپنا حجاب اتارنے سے انکار کردیا تھا۔ میئر ایلزیبتھ ہرزوگ وان ڈیر ہیٹ میئر لکن والڈ قصبہ نے انٹرن کو برطرف کردیا کیونکہ اس نے اپنا حجاب اتارنے سے انکار کردیا تھا۔ دنیا بھر کی نظر میں حجاب اسلام کی مذہبی علامت ہے۔ میئر نے کہا کہ حجاب پہننے سے ٹاؤن ہال کی غیرجانبداری کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ یہاں پر صلیب پہننے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ خاتون نے کہا کہ وہ اپنا حجاب مردوں کی موجودگی میں علحدہ نہیں کرنا چاہتی۔ اس پر میئر نے کہا کہ اسے ملازمت کیلئے سازگار ماحول فراہم کیا جائے گا۔ میئر نے کہا کہ بہتر ہوتا کہ وہ ملازمت حاصل کرنے سے پہلے اپنے اس موقف کا اظہار کرلیتی۔ جرمنی پارلیمنٹ اور چانسلر جرمنی انجیلا مرکل کی قدامت پرست سی ڈی یو پارٹی کے سوین پیٹکے نے شوشیل ڈیموکریٹ (ایس پی ڈی) میئر کی کارروائی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کے اس فیصلہ کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جرمنی کی دستوری عدالت نے فیصلہ سنایا ہیکہ شخصی عقائد اور ان پر عمل آوری جیسے لباس پر اعتراض نہیں کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ حجاب صلیب سے مختلف چیز ہے۔ تاہم انتہاء پسند دائیں بازو کی آلٹرنیٹیو فار جرمنی (اے ٹی ڈی) پارٹی نے انٹرن کو برطرف کردینے کے فیصلہ کی تائید کی ہے۔ پارٹی کے ریاستی رکن پارلیمنٹ تھامس جنگ نے کہا کہ اگر صلیب کی ٹاؤن ہال کے کمروں میں موجودگی کی اجازت نہیں دی جاتی تو مسلمانوں کے ساتھ خصوصی رویہ کی بھی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ انہوں نے کہاکہ میئر قابل احترام ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے اس مشکل فیصلہ کے سلسلہ میں انٹرن کو جھڑکیاں نہیں دیں۔