مدھیہ پردیش میں ہجوم نے امن کا ماردیا اور دوسرے کو گجرات میں اس طرح پیٹا کے وہ مر ہی گیا۔ لڑکیوں کا اغوا ‘ قتل اور ان کو موت کے گھاٹ اتاردیا جارہا ہے ملک میں چاروں طرف اس طرح کے واقعات پیش آرہے ہیں۔جرائم میں بے تحاشہ اضافہ ہورہا ہے۔
اکثر مذہب یا متاثرہ فرد کا طبقہ کافی اہمیت کا حامل ہوجاتا ہے‘ بعض اوقات مبینہ حملہ آواروں کو مضبوط سیاسی حمایت حاصل ہوجاتی ہے۔
اس کے بعد جرم کو سیاسی رنگ دیدیا جاتا ہے۔یہ دعوی کیاجارہا ہے کہ جس دلت کی پیٹائی میں موت ہوئی اس پر طبقہ کا شبہ نہیں بلکہ چوری کا شک تھا۔معاشی تنازعات کی وجہہ سے ایک شخص کو ہجوم موت کے گھاٹ اتاردیتا ہے نہ میویشہ ذبیح کرنے پر۔یہ جرائم کو مزید خطرناک بنانے کاکام کررہے ہیں؟۔
کیوں لوگوںیہ احساس ہورہا ہے کہ وہ کسی بھی فرد کو مار کر اس سے بچ سکتے ہیں؟ سزاء سے بچنے کے اس فروغ پاتے کلچرکو ختم کرنے لئے ہمیں کیاکرنا چاہئے؟سماج قانون اور اپنی مرضی کے مطابق کام کرتا ہے۔
مرضی قوانین سے زیادہ اختیار اور طاقت کی حامل ہوتی ہے۔روایتی سماجی اصول لسانی بنیادوں پر روز مرہ استعمال ہونے والے ضوابط پر نسلوں کے لئے تشکیل دئے گئے ہیں۔
اگر نتائج برآمد نہیں ہوئے تو سمجھا جائے گا کہ روایتی سماجی اصول اس ملک میں بالائے طاق ہیں ۔
جمہوریت کے یقین میں شہریت ہے جو عقائد سے بالاتر ہوکر اس کے حقوق کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری میں ہے۔ یہ وعدہ جمہوریت کی رو ہے۔
اگر ریاستی سطح پر حمایت کی گئی تو اس کا استحصال ہوگا۔فرقہ وارانہ نوعیت کے مقدمات سے دستبرداری‘ طبقے واری امتیاز کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے خلاف پولیس کا استعمال‘ بیف کے نام پر ہجومی تشدد کے ملزمین کو قومی ہیرو کا درجہ فراہم کرنا قابل مذمت اقدمات کہہ جائیں گے۔
بنیاد ی مقصد جمہوری اصولوں اور ریاستی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انہیں معافی فراہم کرنا ہے۔ اس طرح کی حب الوطنی کا خاتمہ کی اس کا حل ہوگا