نئی دہلی۔منگل کے روز سپریم کورٹ سے شیفان جہاں ’لوجہاد‘ کیس کی پیروی کرتے ہوئے ایک سینئر وکیل نے عدالت سے سوا ل پوچھا کہ کیا دو مسلم بی جے پی لیڈرس کی ہندو بیویوں کے متعلق بھی این ائی اے تحقیقات کریگا۔فی الحال مذکورہ کیس سرخیو ں میں ہے کیونکہ اس کیس میں عدالت 25سالہ ہندو اکھیلا ( جو اب حادیہ ہے) جس نے اسلام قبول کرنے کے بعد مسلم نوجوان شیفان سے شادی کرلی تھی اور اس کوکیا ’’ تیل سے مالا مال ریاکٹ ذہنی طور پر اپنے قابو میں لیکرائی ایس ائی ایس میں شامل تو نہیں کررہا ہے‘‘۔
مذکورہ الزامات حادیہ کے والد نے لگائے ہیں جس کی توثیق کیرالا ہائی کورٹ نے بھی کی ہے۔ حادیہ کے شوہر شیفان جہاں نے اس کے بعد سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور یہاں پر شیفان کی مدد ان کے وکیل ہارس بیران نے کی جنھوں نے ہائی کورٹ کی جانب سے شادی کو مسترد کئے جانے والے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیالنج کیاہے۔
انڈیا ٹوڈے کی خبر کے مطابق چیف جسٹس دیپک مشرا کی نگرانی میں سنوائی کررہی بنچ پر دوشنت دیو سینئر ایڈوکیٹ جہان کی طرف سے زوردیاکہ وہ این ائی اے کی تحقیقات کے احکامات سے دستبرداری اختیار کرے او رکہاکہ’’ ہمہ مذہبی معاشرے میں میں اس طرح کی بنیاد ساری دنیاکے لئے ایک خراب پیغام کاسبب بن رہی ہے‘‘۔سینئر وکیل نے کسی کانام لئے بغیر عدالت سے کہاکہ’’ بی جے پی کے دو بڑے مسلم قائدین نے ہندو عورتو ں سے شادی کی ہے۔
کیااس کو آپ لو جہاد کہیں گے کیاآپ بطور پر جج اس شادی کی تحقیقات کا حکم دیں گے؟‘‘اگر اس طرح کا کام کیاجاتا ہے تو یہاں پر بھی ہونا چاہئے‘ چیف جسٹس آف انڈیا نے اس کے بعد مشرا اور اس کے بعد دیو سے سوال پوچھاحقائق کے ساتھ قانون کے مطابق بات کریں۔ انڈیا ٹوڈے نے خلاصہ کرتے ہوئے کہاکہ دیونے کسی سیاسی پارٹی لیڈر کا نام نہیں لیامگر ان کا اشارہ مختار عباس نقوی اور شہنواز حسین کی طرف تھا