حادیہ کے والد کا دعوی ہے کہ وہ ایک ناستک ہے۔
ٹی وی پورم۔ریاست کیرالا کے ضلع کوٹائم میں واقعہ گاؤں ٹی وی پورم کے اس گھر میں جہاں پر’’ دیوی کریپا‘‘ کی تختی لگی ہوئی ہے کا اندرونی ماحول نہایت گرم دیکھائی دے رہا ہے جس کے باہر سکیورٹی کی غرض سے دو پولیس والے متعین کئے گئے ہیں۔ اس گھر کی بیٹی حادیہ( سابق کی اکھیلا) سپریم کورٹ کی ہدایت کے بعد فی الحال سلیم کے کالج میں اپنی میڈیکل کی پڑھائی مکمل کرنے کے لئے بھیج دی گئی ہے۔
حادیہ کے والد کے ایم اشوکن کسی سے ملاقات نہیں کرنا چاہتے ہیں اور اسی وجہہ سے وہ اپنے ایک پڑوسی کے پاس جاکر رہ رہے ہیں۔سگریٹ کا ایک گہرا کش لے کر اشکون نے کہاکہ ’’ میں شراب نوشی کے ذریعہ سکون حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہوں مگر میں بیوی پوناماں کا کیا؟ وہ صبح یہ بول کر گئی ہے کہ کچھ لے کر ائے گی۔ مگر مجھے پتہ ہے وہ وائی کوم کے شیوا مندر میں جاکر رورہی ہوگی۔ اس کے علاوہ وہ کیا کرسکتی ہے؟ یہ بات اشکون نے کہی جو خود کو ناستک قراردے رہے ہیں۔ اشوکن اپنی بیٹی کی واپسی کے لئے قانونی لڑائی لڑر ہے ہیں‘جس نے اسلام قبول کرنے کے بعد ایک مسلم لڑکے شیفان جہاں سے شادی کرلی ہے۔
کیرالا ہائی کورٹ نے اس شادی کو منسوخ کرتے ہوئے اس لڑکی کو والدین کی تحویل میں بھیج دیاتھا تاکہ اس پر نظر رکھی جاسکے۔ اشوکن نے کہاکہ ’’ میں حادیہ نہیں بلکہ اکھیلا کے طور پر اس کوواپس لانے کے لئے اپنی جدوجہد کو جاری رکھوں گا ‘‘۔ آرمی میں ڈرائیور کی نوکری کرنے کے بعد ریٹائرڈ ہونے والے 57سالہ اشوکن نے کہاکہ ’’ ہماری شادی کے وقت ہم نے یہ سونچاتھا کہ ایک ہی بچہ کو جنم دیں گے چاہے وہ لڑکا ہو یاپھر لڑکی اور اپنے تمام وسائل اس پر خرچ کریں گے ‘ ہم نے ایسا کیا اور اس کی بہتری کے لئے ہر وہ چیز کی ۔ کس طرح میں اس لڑائی کو ادھاراستے میں چھوڑ سکتاہوں؟ مجھے قبول نہیں ہے کہ اس کی شادی شیفان جہاں جیسے دہشت گرد سے ہو۔ میں اس کو واپس لانے کے لئے اپنی زندگی کا تمام سرمایہ اس کو دینے کے لئے تیار ہوں ‘‘۔ پیر کے روز جب سپریم کور ٹ نے حکم دیا کہ حادیہ کو کالج روانہ کیاجائے ‘ اس وقت حادیہ کے پاس کپڑے نہیں تھے۔
اشوکن نے کہاکہ میں نے چھ ہزار روپئے نئے کپڑے خریدنے کے لئے اس کو دئے۔ اسی دوران پونم کمرے میں ائی او رانہوں نے کہاکہ وہ 24مئی کے بعد سے برابر سونہیں پائی ہیں۔ جب کیرالا ہائی کورٹ نے اس کی تحویل ہمارے سپرد کی ’’ تو کئی مرتبہ راتو ں میں اٹھ کر میں اس کو دیکھتی تھی کہ وہ ٹھیک ہے یا نہیں‘ کوئی انتہائی اقدام تو اس نے نہیں اٹھالیاہے‘‘۔پونماں نے کہاکہ ’’ پچھلے دوسالوں سے میں بھگوان سے پرارتھنا کررہوں کہ میری بیٹی مجھے واپس مل جائے۔ اس نے مجھے بھی اسلام قبول کرلینے کو کہا۔
اس نے مجھ سے کہاکہ ماں تم جہنم میں جاؤ گی کیونکہ تم بہت سارے دیوی دیوتاؤں کی پوجاکرتی ہو‘۔اس کا ماننا ہے کہ مسلمان بننے کے بعد ہی باوقار ہوجاؤگے‘‘۔ پونماں نے کہاکہ اکھیلا کا مذہب تبدیل کرنے والے سمجھتے ہیں کہ انہوں نے پاک عمل کیاہے’’ کیاایک بیٹی کو ان سے دور لے جانا پاک عمل ہے؟ کس کا بھگوان ایسا بے رحم کام کرنے کی اجازت دیگا؟کیامسلم سماج اپنی کسی لڑکی کو ہندو مذہب اختیار کرنے کی اجازت دیگا؟‘‘۔انہوں نے مزیدکہاکہ ’’ جب سپریم کورٹ نے اس کی شادی کو منسوخ کردیا تو اس کے بعد ہمارے تئیں نفرت پیدا ہوگئی۔
وہ پولیس والوں پر برہم تھی۔ مگر اس نے ہماری ستائش نہیں کی۔ یہ صرف اس لئے ہوا کہ اس کی ذہن سازی ان طاقتوں نے کی ہے جس نے اس کا مذہب تبدیل کرایا ہے۔ہم نے کبھی بھی اس کو اذیت نہیں پہنچائی ‘ اس کے برخلاف ہمارے ساتھ مارپیٹ اس نے ہی کی ہے‘‘۔اشوکن نے کہاکہ’’ وہ میری اکلوتی بیٹی ہے میں اس کو کسی دہشت گرد کے ساتھ جانے نہیں دونگا‘‘