ان تینوں اس وقت کنہیا جے این یو اسٹوڈنٹ یونین کے اسوقت صدر تھے‘ پولیس نے اٹھ دیگر لوگوں کے نام بھی مسودہ چارج شیٹ میں شامل کئے ہیں جو پبلک پراسکیوٹر کے پاس روانہ کردی گئی ہے اور توقع ہے بہت جلد پٹیلہ ہاوز کورٹ میں وہ داخل کردی جائے گی
نئی دہلی۔ تقریبا تین سال بعد ایک ایف ائی آر جواہرلال نہرویونیورسٹی( جے این یو) طلبہ کے خلاف درج کی گئی ہے جو یونیورسٹی کیمپس میں مبینہ طور پر ’’ مخالف ملک نعرے بازی ‘‘کے الزام پر مشتمل ہے‘ دہلی پولیس کے اسپیشل سل نے مذکورہ کیس کے ضمن میں ایک مسودہ چارج شیٹ تیار کی ہے جس کنہیا کمار‘ عمر خالد او رانیر بان بھٹاچاریہ کے نام اہم ملزمین میں شامل ہیں۔
ان تینوں میں اس وقت کنہیا جے این یو اسٹوڈنٹ یونین کے اسوقت صدر تھے‘ پولیس نے اٹھ دیگر لوگوں کے نام بھی مسودہ چارج شیٹ میں شامل کئے ہیں جو پبلک پراسکیوٹر کے پاس روانہ کردی گئی ہے اور توقع ہے بہت جلد پٹیلہ ہاوز کورٹ میں وہ داخل کردی جائے گی۔
انڈین ایکسپرس سے بات کرت ہوئے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک سینئر پولیس افیسر نے کہاکہ ’’ کشمیر سے تعلق رکھنے والے تمام دیگر اٹھ لوگوں کے خلاف پولیس کو واقعہ سے متعلق شواہد دستیاب ہوئے ہیں‘ ان میں سے دو جے این یو کے اسٹوڈنٹس ہیں ‘ دو کا تعلق جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ہے اور ایک علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا طالب علم ہے‘ جبکہ ایک مراد نگر نژاد ڈاکٹر اور دو طلبہ بھی ہیں‘‘۔
پولیس ذرائع کے مطابق دیگر طلبہ کا بیان قلمبند کرنے او رخالدسے پوچھ تاچھ کے بعد واقعہ کی جا نچ کررہے افسروں نے اٹھ کشمیر ی اسٹوڈنٹس کی نشاندہی کی ہے جس میں دو بھائی بھی شامل ہیں۔کیس سے وابستہ ایک افیسر نے کہاکہ ’’ کچھ طلبہ کی سوشیل میڈیا پروفائیل کی جانچ کے بعد پولیس نے کچھ شواہد اکٹھا کئے ہیں۔ ان میں سے ایک نے واقعہ کے روز نعرے لگاتا ہوئے ویڈیو فیس بک پر بھی پوسٹ کیاہے۔
ان میں سے زیادہ اسٹوڈنٹس نے لوگوں کو پروگرام میں شریک ہونے کے لئے تشہیر کرتے ہوئے پائے گئے ہیں‘‘۔پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ مسودہ چارج شیٹ میں دیگر 32لوگوں کے نام بھی شامل کئے گئے ہیں جس میں جے این یو یونین کی سابق نائب صدر شیہلا رشید کا بھی شامل ہے‘ مگر یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے خلاف’’ ٹھوس ثبوت او ر شواہد موجود نہیں ہیں‘‘۔
پارلیمنٹ پر حملہ کرنے والے افضل گروکو سنائی گئی سزائے موت کی برسی کے موقع پر9فبروری2016کے روز منعقدہ احتجاجی پروگرام کے خلاف درج ایف ائی آر کی بنیاد پر چارج شیٹ تیار کی گئی ہے۔ ایف ائی آر میں کہاگیاتھا کہ پروگرام کے دوران مبینہ طور پر ’’مخالف ملک‘‘ نعرے لگائے گئے تھے۔
پولیس ذرائع کے مطابق چارج شیٹ میں تاخیر کی وجہہ ملزمین کی تحویل سے ضبط شدہ لیاپ ٹاپ اور موبائیل فونس کی فارنسک جانچ ہے جس کی رپورٹ ابھی حاصل ہوئی ہے۔
مذکورہ افیسر نے کہاکہ ’’ سنٹرل فارنسک سائنس لیباریٹری کی رپورٹس میں سے ایک میں سی بی ائی کو جانکاری ملی ہے کہ ایک ویڈیو فوٹیج تقریب کا حقیقی ہے‘‘۔ جب کنہیا کمار کی وکیل سے انڈین ایکسپرس سے ربط قائم کیاتو وریندا گرور نے بتایاکہ وہ چارج شیٹ کے موقف سے واقف نہیں ہیں۔
انہو ں نے کہاکہ ’’ صاف طور پر یہ سیاسی طور پر دباؤ والا کیس ہے۔
کنہیا کمار الیکشن لڑنے جارہے ہیں‘ اور ہم یہ بھی جانتے ہیں سیاسی وجوہات کی بنا پر یہ کام کیاجارہا ہے۔ یہ سیاسی دور میں پولیس کے استعمال کی ایک بدترین مثال ہے ۔ پہلے روز سے ہم کہہ رہے ہیں کہ یہ سیڈیشن کا کیس نہیں ہے اور الزامات من گھڑت ہیں‘‘۔
پولیس نے کہاکہ اصلی چارج شیٹ سو صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں فارنسک رپورٹس ‘ بیانات او رتکنیکی شواہد کی تفصیلات موجو د ہے۔کیمپس میں پیش ائے واقعہ پرجے این یو کی تشکیل شدہ ایک تحقیقاتی اعلی سطحی کمیٹی نے نے اپنے رپورٹ میں کہاتھا کہ دس سے پندرہ لوگ’’باہر سے ائے ہوئے‘‘ جنھوں نے اپنے چہروں کو کپڑوں سے چھپا لیاتھا ‘ وہ نعرے لگارہے تھے۔
پینل نے کہاکہ ’’ باہر کے لوگوں ‘‘ کی موجودگی کے متعلق سکیورٹی اسٹاف اور عینی شاہدین نے بھی تصدیق کی ہے۔واقعہ کے بعد پولیس نے کمار‘ خالد او ربھٹاچاریہ کو سیڈیشن کے الزامات کے تحت گرفتار کرلیاتھا بعد ازاں ان کی ضمانت پر رہائی عمل میں ائی۔
ابتداء میں وسنت کنج ( نارتھ) پولیس اسٹیشن میں 11فبروری2016کے روز ائی پی سی کی دفعہ 124-Aکے تحت سیڈیشن کاایک مقدمہ درج کیاگیاتھا۔ بعدازاں کیس اسپیشل سل کو منتقل کیاگیا اور دوران تحقیقات دو اور ائی پی سی کے دفعات 147اور 149بھی اس میں شامل کرلئے گئے۔