جی ایچ ایم سی کی جانچ میں پتہ چلا ہے کہ حلیم کی بہت کم دکانوں پر اسٹامپ والا گوشت سربراہ کیاجارہا ہے

حیدرآباد۔رمضان کے موقع پر کئی وینڈرس اور دوکانیں ہمہ اقسام کے ذائقہ دار کھانے فروخت کرتے ہیں وہیں پرسارے شہر میں ہر جگہ ایک خصوصی اور پسندیدہ ڈش حلیم بھی دیکھائی دیتی ہے۔

بڑی ہوٹل سے لیکر چھوٹی دوکان تپ حلیم بہترین انداز میں گاہکوں کو سربراہ کی جاتی ہے جو لذیذ ڈش سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں مگر کیا یہ آ پ جانتے ہیں کہ اس میں استعمال ہونا والا گوشت کس قدر محفوظ ہے۔ اگر ذرائع سے ملی اطلاع پر یقین کیاجائے تو ہمیں اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ ان دوکانوں پر سربراہ کیاجانا والا گوشت بناء اسٹامپ کا ہے۔مجالس مقامی کے سروے کے مطابق یہاں پر ایسے741حلیم کی دوکانیں ہیں جس میں بناء اسٹامپ کا گوشت سربراہ کیاجارہا ہے۔مگر رمضان کے دوران سارے شہر میں741دوکانوں کی تعداد کسی کو قائل نہیں کرسکے گی۔

اب جی ایچ ایم سی کے اعلی ذرائع جو اس مجالس مقامی کے ہلت اینڈ سانٹیشن کی رمضان کے دوران جھوٹی رپورٹ کے حقائق کو لیکر سامنے آیا ہے ۔مذکورہ ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ مجالس مقامی پر زمینی سطح پر کام کرنے والا عملہ مذکورہ حلیم کی دوکانوں پر سربراہ کئے جانے والے گوشت پر لگائے جانے والے اسٹامپ کی جانچ کررہا ہے اور نہ ہی حلیم سنڈرس کی صفائی کے متعلق جانچ پڑتال کررہا ہے۔

ذرائع سے ہوئے انکشاف کے مطابق ہلت اور سانٹیشن وینگ کے تساہل کا سخت خمیازہ شہریوں کو بھگتناپڑیگا۔چیف ویٹرنری افیسر پی وینکٹیش ریڈی نے ہنس انڈیا کو بتایا کہ تقریبا700جانور مقامی مجالس کے مسلخوں میں کاٹے جاتے ہیں جس میں مچھلی اور مرغ شامل نہیں ہے اور 90فیصد بکرا اور 10فیصد بیف کا گوشت اس میں شامل ہے۔ وینکٹیشوار ریڈی سے معلوم ہوا ہے کہ جی ایچ ایم سے فوڈ انسپکٹر اور اسٹنٹ میڈیکل افیسر فار ہلت( اے ایم او ایچ یس)مذکورہ حلیم کی دوکانوں پر متواتر گوشت کی جانچ کرتے ہیں۔

بناء اسٹامپ کے گوشت کی سربراہی کے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں وینکٹیشوار نے جواب دیا کہ اس ضمن میں اب تک کوئی بھی شکایت ہمیں موصول نہیں ہوئی ہے یہ تمام741حلیم کی دوکانوں پر مجالس مقامی کی سخت نظر رکھے ہوئے ہے