جی ایس ٹی کا اثر ‘ اب دوسہ ‘ سانبر ‘ چائے ‘ کافی اور پینے کا پانی بھی مہینگا ہوگا

املی کی قیمتوں میں 12 فیصد اور روا و میدے کی قیمت 5 فیصد اضافہ ۔ بعض اشیا کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ صارفین تک پہونچنا ممکن نہیں
حیدرآباد 2 جولائی ( سیاست ڈاٹ کام ) ملک بھر میں جی ایس ٹی پر نفاذ کا آغاز ہوگیا ہے ۔ حالانکہ ابھی اس کے مکمل اثرات کے تعلق سے قطعیت سے کچھ کہا نہیں جاسکتا لیکن اس کے نتیجہ میں روزمرہ کے استعمال کی اور ضروری اشیا کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے ۔ جی ایس ٹی کے نتیجہ میں کچھ ایسی اشیا پر ٹیکس عائد ہونے جا رہا ہے جس کا پہلے کبھی تصور بھی نہیں تھا ۔ جی ایس ٹی کے نفاذ سے اب اگر آپ پانی بھی پی رہے ہوں تو یہ مہینگا ہوگا ۔اگر آپ کافی یا چائے پیتے ہیں تو یہ بھی مہینگی ہونگی ۔ آپ کے دودھ کی قیمت ہوسکتا ہے کہ وہی رہے یا اس میں ایک دو روپئے کمی بھی آئے لیکن چائے اور کافی کی قیمتوں میں پانچ فیصد کا اضافہ ہوگا ۔ ابھی یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ آیا جی ایس ٹی کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ ہوگا یا کمی ہوگی ۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ نوٹ بندی کی طرح جی ایس ٹی کے امور کو سمجھنے کیلئے بھی کچھ وقت درکار ہوگا ۔ جی ایس ٹی کی وجہ سے دالوں کی قیمت میں پانچ فیصد کا اضافہ ہوگا جبکہ املی تک کی قیمت میں 12فیصد کا اضافہ ہوگا ۔ روا اور میدا بھی ان اشیا میں شامل ہیں جن کی قیمتوں میں 5 فیصد اضافہ ہوگا ۔ اس کے نتیجہ میں اگر آپ دوسہ کھاتے ہیں یا سانبر استعمال کرتے ہیں یا کافی پیتے ہیں تو ان کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگا ۔ جی ایس ٹی پر عمل آوری کے آغاز سے بوتل کا پانی بھی مہینگا ہوگا ۔ 20 لیٹر کے پانی کے کیانس کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے ۔ تاہم چھوٹے تاجروں کو اس سے کچھ حد تک فائدہ ہوسکتا ہے کیونکہ ان پر جی ایس ٹی زیادہ عائد نہیں ہوگا تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ فوائد صارفین تک پہونچنے کے امکانات کم ہی ہیں۔ کرانہ شاپس کے مالکین کیلئے جی ایس ٹی کا اندراج مشکل ہوگا کیونکہ ان کے پاس پہلے سے TIN نہیں ہے اور بغیر TIN کے جی ایس ٹی کا اندراج ممکن نہیں ہے ۔ بعض گوشوں کے بموجب ناخواندہ افراد کو جی ایس ٹی کی پیچیدگیوں کی وجہ سے اپنے کاروبار کو ہی بند کرنا بھی پڑسکتا ہے ۔ ٹیکسٹائیل شعبہ کو اب تک کسی ٹیکس میں شامل نہیں کیا گیا تھا اور اب انہیں پانچ فیصد جی ایس ٹی ادا کرنا پڑسکتا ہے ۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ ایک چھوٹے تاجر اور ایک 1000 کروڑ کے کاروبار والی تجارت کو بھی ایک ہی ٹیکس ڈھانچہ میں لادیا گیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس میں کسی طرح کی لچک نہیں رکھی گئی ہے ۔