ہم آپ کو وہ تمام باتیں یاد نہیں دلائیں گے جو نریندر مودی نے وزیر اعظم بننے سے پہلے کہی تھیں۔الیکشن کی طوفانی گہما گہمی میں ہر پارٹی او رہرعام طور پر وہی باتیں کرتا ہے۔جنہیں سن کر سننے والے خوش ہوکر تالیاں بجائیں ۔کہنے والے او رسننے والے دونو ںیہ جانتے ہیں کہ کہی جانے والی باتیں ایسے سبز باغ ہوتے ہیں ان میں کبھی بھی پھول نہیں آتے ۔
نہ کہنے والے کو یہ ڈر ہوتا ہے کہ باتیں اگر سچ نہ نکلیں تو سننے والے سننے والے ان کا گریبان پکڑیں گے۔نہ سننے والے کو یہ خوش فہمی ہوتی ہے کہ کہنے والا اپنی بات پر کھرا اترے گا۔مصیبت تو اس وقت آتی ہے جب کہنے والا تو جانتا ہے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے لیکن سننے والے اس کے لہجہ سے متاثر ہوکر یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ کہنا والا بالکل سچ کہہ رہا ہے ۔ہندوستان کی عوام خود کو اسی کیفیت کا شکار پا رہے ہیں ۔
اتفاق سے نریندرمودی کے لئے عوام کی یہی کیفیت وبال جان بن رہی ہے ۔حالاں کہ بی جے پی کے صدر امیت شاہ بار با ریقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وزیراعظم کی کہی ہوئی بہت سی باتیں محض ’جملہ بازی‘ تھیں۔لیکن یہ سن کر عوام کا اندازہ کچھ ایسا ہوتا ہے جیسے وہ کہہ رہے ہیں
نریندر مودی کبھی جھوٹ نہیں بول سکتے۔عوام کسی بات کو سچ مان لیں تو جھوٹ بولنے والا پھنس کر رہ جاتا ہے۔مودی نے کہا کہ مجھے پردھان منتری نہ بنائے مجھے چوکیدار بنا کر دلی میں بیٹھا دیجئے میں بھارت کے خزانہ پر کوئی پنجہ پڑنے نہیں دوں گا۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ’ نہ کھاؤں گا نہ کھانے دوں گا‘ ۔
بس یہیں پر گڑ بڑ ہوگئی ۔یقیناًانہوں نے کچھ نہیں کھایا لیکن ان کے ارد گرد جمع لوگوں نے کھاتے بھی رہے اور سمیٹ کر گھر بھی لے جا تے رہے۔ایک بار پھر یہ دہرانا ضروری ہے کہ نریندر مودی پر خود بد عنوانی کا کوئی داغ نہیں ہے ۔اسی کے ساتھ یہ دوہرانا ضروری ہے کہ آج تک کسی وزیراعظم پر شخصی طور پر کرپشن کا الزام نہیں لگا۔
یہ بات کسی سے مخفی نہیں ہے کہ گذشتہ پارلیمانی الیکشن کی بے حد مہنگی اور بے حد نمائشی مہم اس ملک میں اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔میڈیا کو سنبھالنے پیشہ ور منیجمنٹ ایجنسیوں کی مہنگی صلاح کاری اور ریلیوں کے لئے ہیلی کاپٹروں پر پانی کی طرح پیسہ بہایا گیاتھا۔دنیا جانتی ہے کہ یہ پیسہ امبانیوں اور اڈانیوں کی تجوریوں سے نکلا تھا۔اب یہ سب وہ پیسہ سود سمیت وصول کر رہے ہیں ۔مودی سرکار ان لوگو ں کی مانگیں ماننے پر مجبور ہے۔
گذشتہ چار برس میں امبانیوں او ر اڈانیوں کے بزنس میں جو اضافہ ہوا ہے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ان لوگو ں کو جو رعایتیں دی گئی ہیں اس پر سوال اٹھتے ہیں ۔ان سوالو ں سے بچنے کے لئے مودی سرکار نے ایک نئی ترکیب نکالی ہے۔
سرکار نے جھوٹ کو اپنا چوکیدار بنا لیا ہے ۔پہلا گھوٹالہ ، رافیل جنگی طیاروں کی ڈیل سے متعلق تھا ۔رافیل جہازوں کی خریداری کا معاہدہ یو پی اے کے زمانے میں ہوا تھا۔اس معاہدہ کی مدوں کو بدلنے کے لئے مودی خود اٹلی گئے۔معاہدوں کے تحت ۱۲۶ ؍ جہاز خریدے جانے والے تھے ۔مودی جی نے ان کی تعداد گھٹاکر ۲۶ جہا زکردی او ران ۲۶ جہازوں کی قیمت بڑھاکر ۱۲۶ ؍ جہازوں کی قیمت کے برابر کردی۔
یہ کام کابینہ کمیٹی کی منظوری کے بغیر کیاگیا جو کہ خلاف قاعدہ ہے۔اس نئے معاہدوں پر وزیراعظم نے بنفس نفیس دستخط کئے اور اس موقع پر ان کے ساتھ وزیر دفاع ہونا چاہئے تھا ۔لیکن وہ بھی غیر حاضر رہے ۔اس وقت وزیر اعظم کے ساتھ صنعت کار انیل امبانی تھے۔معاہدہ کی ایک مد یہ بھی تھے کہ جہازوں کے لئے فاضل پرزوں کی خریداری اور غیر ملکی کمپنی کرے گی۔جسے انیل امبانی نے صرف پانچ ماہ قبل ہی خریدا تھا۔