جھوٹ بولتے بولتے سچ بول گئے مودی

وزیراعظم کی ایک بات سے تو ہر کسی کو اتفاق کرنا چاہے اور انہیں بحثیت جمہوریت کے چوتھے ستون عوام کے سامنے حقیقت بیانی سے کام لینا چاہئے۔ تبھی صحیح معنوں میں میڈیا اپنی ذمہ دارا کرسکے گا

مومن فہیم عبدالباری بھیونڈی

لوک سبھا الیکشن 2019کے لئے رائے دہی کے ساتھ مرحلے 19مئی شام تک مکمل ہوگئے اور نتائج23مئی2019کو ہمارے سامنے ہوں گے۔

اسی درمیان وزیراعظم کے گذشتہ دنوں معروف انگریزی اخبارانڈین ایکسپریس کو بھی انٹرویو دیا۔ توں تو انہوں نے انڈین ایکسپریس پربھی جانبداری کے الزامات لگائے۔

بلند بانگ دعوے کیے لیکن صحافیوں سے متعلق انہوں نے کہاکہ ”وہ اپنے آپ کو غیرجابنداری دیکھانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ ہیں نہیں۔

اچھے صحافیوں کو غیرجابندار ہونا چاہئے۔

سمینار او رسوشیل میڈیاپر ان کی جانبداری ظاہر ہوتی ہے“۔ان باتوں میں انہوں نے ایک جگہ روایش کمار کا نام لیتے ہوئے ان پر بھی تنقید کی۔

مختصر انٹرویو کے اس پیراگراف میں انہوں نے مڈیا او رصحافیوں پر ان کی او ران کی پارٹی کی امیج خراب کرنے کا بھی الزام لگائے۔

وزیراعظم کے اسی انٹرویو کے جواب میں معروف انگریزی روزنامہ ہندوستان ٹائمز نے شیکھر گپتا کا ایک مضمون شائع کیا۔

جس کا عنوان ہی یہ تھا کہ ”میڈیا پر مودی کے ریمارکس درست نہیں ہیں“۔ مزید اس مضمون کے ذیلی سرخی میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ چند ایک استثنیٰ کے علاوہ میڈیاکی ایک بڑی تعداد ان کے گن گاتی ہے اور تنقید صرف حزب مخالف کرتی ہے۔

اپنے اس مکمل مضمون میں شیکھر گپتانے مدلل انداز میں اپنی بات کہی اور وزیراعظم کے بیان کی نفی کی۔

جو افراد روزانہ ٹیلی ویثرن نیوز چینلوں پر خبریں‘ تجزیہ اور مباحثے دیکھتے ہیں وہ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ موجودہ دور میں بالخصوص الکٹرانگ میڈیا

ان میں سے زیادہ تر ہندی نیوز چیانلس کی اکثریت ایسی ہے جو دن رات وزیراعظم اور برسراقتدار جماعت کی تعریفوں کے پل باندھنے میں مصروف ہے۔

حزب مخالف کے ترجمان کو موقع نہ دینا برسراقتدار جماعت کے ترجمان کو نہ صرف یہ کہ زیادہ بولنے کا موقع دینا بلکہ ایک طرح سے ان کی ”اسپون فیڈنگ“ کا بھی کام یہ نیوز چیانلس کررہے ہیں۔

دیکھا جائے تو اپنے اس انٹرویو میں وزیراعظم نے سچ ہی کہہ دیا کہ کچھ صحافی یا میڈیا نمائندے جانبداری کا مظاہرے کررہے ہیں لیکن شاید وہ یہ بھول گئے کہ درحقیقت جانبدار

صحافیوں کی ایک بڑی تعداد نے تمام صحافتی اخلاقیات کا بالائے طاق رکھتے ہوئے ان کی ہی منہ بھرائی او رچاپلوسی کاکام کیا ہے او رکررہے ہیں۔گذشتہ پانچ برسوں میں اس حکومت

نے ایسا کوئی کام نہیں کیا جس کی پذیرائی کی جائے۔ ملک میں اب وہ ”مودی لہر“ بھی باقی نہیں رہی جو گذشتہ الیکشن کے موقع پر تھی۔

ہندی بیلٹ کی تین ریاستوں اور ضمنی انتخابات میں پے درپے شکست نے برسراقتدار جماعت کے پیروں تلے زمین کھسکادی ہے۔

بہرکیف وزیراعظم کی ایک بات سے توہر کسی کواتفاق کرنا چاہئے کہ میڈیا او رصحافیوں کو غیرجانبدار ہونا چاہئے او رانہیں بحیثیت جمہوریت کے چوتھے

ستون عوام کے سامنے حقیقت بیانی سے کام لینا چاہئے۔تبھے صحیح معنیٰ میں میڈیااپنی ذمہ داریاں ادا کرسکے گا۔