جواہر لال نہرو یونیور سٹی کے ذمہ داران آر ایس ایس کے اشارہ پر کام کرہے ہیں ۔ 

نئی دہلی : ملک کی راجدھانی دہلی میں واقع جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں عربی کے ساتھ دیگر بیرونی ممالک کی زبانوں کے شعبہ میں دوسر ے سال کے داخلوں پر لگائی جانے والی پابندیوں کی ہر طرف سے مذمت کی جارہی ہے ۔ا وریہ بھی کہا جارہا ہے کہ اس طر ح حکومت کا یہ بھی ارادہ ہے کہ مدارس اسلامیہ میں سے جو طلبہ اعلی تعلیم حاصل کر کے اعلی عہدوں پر فائز ہورہے تھے ان کو بھی روکا جاسکے ۔

اس تعلق سے بات کرتے ہوئے دہلی کے سابق وزیر ہارون یوسف نے کہا کہ مرکزی حکو مت آج اسی پالیسی کو آگے لے جارہی ہے جسے آر ایس ایس نے تیار کیا تھا ۔اسی لئے ہر یونیور سٹی میں آر ایس ایس نواز لوگوں کو مسند پر بٹھایا جارہا ہے۔او ران سے وہی کروایا جارہا ہے کہ جو آر ایس ایس چاہتی ہیں ۔ ہارون یوسف نے جے این یو میں دیگر زبانوں کے ساتھ عربی فارسی کے شعبوں میں داخلے پر لگائی جانے والی پابندی کو ایک خاص طبقہ کے نوجوانو ں کو نشانہ بناکر کی جانے وائی کارروائی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کی آڑ میں طلباء مدارس کو مین اسٹریم ایجوکشن سے جوڑنے کی ان کی تمام کوششوں پر پانی پھر جائے گا ۔جو اب تک مختلف اداروں او رسماجی کارکنان کی جانب سے کی جارہی تھیں ۔

انہوں نے کہا کہ جے این یو کے بعد دیگر تعلیمی اداروں پر بھی نشانہ لگا یا جاسکتا ہے ۔ اس لئے ہم اس کی سخت مذمت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ اس غیر جمہوری فیصلے کو واپس لیاجائے ۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ممبر اور دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیر مین کمال فاروقی نے کہا کہ ہندوستان ثقافتی اور مذہبی ہم آہنگی کیلئے مشہور ہے او ریہاں ہر مذہب کوفروغ دیا گیا ۔ ایسے حالات کے بعد بھی مخصوص طبقہ کو دیگر زبانوں کے بہانے تعصب سے دیکھنا تباہ کن اور ملک کی سالمیت کیلئے خطرہ ثابت ہوسکتا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ زبان عربی او رفارسی کا ہندوستان سے ہزاروں سال پرانہ رشتہ ہے او رپھر وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی خیال رکھنا چاہئے کہ متحدہ عرب امارت کی حکومت نے وہاں کام کرنے والے غیر مسلم بھائیوں کے لئے مندر بنانے کی اجازت دے دی ہے ۔ پھر ہندوستان جیسے عظیم ملک کی راجدھانی میں ایک دانش گاہ سے اس طرح عربی زبان کو ختم کرنے کی کوشش قابل افسوس ہے۔