ہر سیاسی جماعت اور اس سے وابستہ قائدین کی سیاسی زندگیوں میں نشیب وفراز کوئی حیران کن بات نہیں ہے مگر پارٹی کے اندر ساز ش کے تحت کسی سینئر قائد کو درکنار کرنا یا پھر نئی ٹیم کے نام پر ان کے خدمات کو فراموش کرنا یقیناًتعجب خیز ہے۔ میرا یہ ماننا ہے کہ ایسے سیاسی قائدین جو اعلی منصوبوں پر فائز رہنے کے بعد جب وہ اقتدار سے محروم ہوگئے یا پھر ان کی موت واقع ہوگئی تو ایسے قائدین کے ساتھ پارٹی کے اندر ہونے والی سازش ان کے ماضی کی کارستانیوں کا نتیجہ ہوتا ہے
۔ہندوستان کی سیاسی تاریخ کے کئی ایسے سیاہ باب ہیں جنھیں یاتو پارٹی کے اندرونی سازشوں نے ہاشیہ پر لاکر کھڑا کردیا یاپھرتاریخ کے اوراق میں رہنے کے باوجود گمنامی کے گوشوں میں گشت کررہے ہیں۔کانگریس پارٹی میں ایسی ہی کچھ نام ہیں جو پارٹی کے قداور قائدین میں تو شامل ہیں مگر پارٹی قائدین بڑے احتیاط سے ان کا نام لیتے ہیںیا تو اکثر مواقعوں پر ان کے تذکرہ کرنے سے بھی گریز ہی کرتے ہیں۔ ویسے تو بہت سارے نام ذہن میں ہیں مگر میںیہاں پر ایک نام کا تذکرہ ضرور ی ہوگااور وہ نام کسی اور کا نہیں بلکہ پی وی نرسمہا راؤ ہے۔
و ہ ملک کے وزیر اعظم تو رہے مگر انہیں کانگریس پارٹی میں وہ اعزازآج بھی حاصل نہیں ہے‘ جس کے وہ مرتے دم تک حقدار سمجھتے رہے ۔پارٹی کی اعلی قیادت کے ساتھ بغاوت اور وزیراعظم بننے کی لالچ نے انہیں کانگریس پارٹی کے اندر ہی پرایا بنادیا اس کے بعد بابری مسجد کی شہادت کاسانحہ جس سے نہ صر ف مسلمانوں کی دلآزاری ہوئی ہے بلکہ آج بھی سکیولر ہندوستان کا ہر امن پسند شہری بابری مسجد کی شہادت کے سانحہ پر ملال کرتا ہے۔
نرسمہا راؤ کی موت کے بعد آخری رسومات کے لئے دہلی میں جگہ تک نہیں ملی اور حیدرآبادمیں جہاں پر ان کی آخری رسومات ہوئی وہاں کے حالات سے تو سب ہی اچھی طرح واقف ‘ نرسمہا راؤ نہ صرف زندگی میںیکا وتنہا ہوگئے تھے بلکہ مرنے کے بعد بھی ان کی ادھی جلی نعش کے ساتھ کیاہوااس عبرت ناک انجام کو سبھی نے دیکھا ہے۔
جہاں تک بی جے پی کا تعلق ہے تو راشٹرایہ سیوم سیوک سنگھ کے سیاسی محاذ کے طور پر بی جے پی کو پہچانا جاتا ہے جس کے اندر ڈسپلن کے بلند باگ دعوے تو کئے جاتے ہیں مگر نفرت کے ذریعہ سیاست میں استحکام کا اعزاز بی جے پی کو ہی حاصل ہے۔ایک وقت تھا جب بی جے پی کے دوہی اراکین پارلیمنٹ تھے جنھوں نے رتھ یاترا کے نام پر سارے ملک میں خون کی ہولی کھیلی ہے ۔
تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ جہاں جہاں سے اٹل بہاری واجپائی اور لال کرشنا اڈوانی کی زیرقیادت نکالی گئی رتھ یاترا گذرے وہاں پر اپنے پیچھے خون کے گہرے نقوش چھوڑتی چلی گئی۔ نفرت کا ننگا ناچ اس قدر ہوا کہ بے قصوروں کی جانیں گئیں‘ گھر لوٹے گئے اور کاروبار نذر آتش کئے گئے۔ عورتوں کی عصمتیں لوٹی گئی اور معصوم معصو م بچوں کو نیزوں پر اچھالا گیا ۔1990سے لیکر 2002تک ملک کی ایسی کوئی ریاست نہیں باقی تھی جہاں پر فرقہ پرستوں نے نفرت کا زہر گھول کر امن اور جمہوری اقدار پر یقین رکھنے والوں کے درمیان میں تشدد برپا نہ کیاگیاہو۔
واجپائی او راڈوانی بی جے پی پارٹی کے دوایسے نام ہیں جنھوں نے بے شمار قربانیو ں کے ذریعہ نفرت کے اس پودے کو گھناؤر درخت بنانے میں سب سے اہم رول ادا کیا ہے ۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد ملک پیش آنے والے سیاسی بحران کا راست فائدہ بی جے پی کوہوا اور نیشنل ڈیموکرٹیک الائنس کی تشکیل عمل میں ائی ۔
جبکہ مذکورہ این ڈے اے اتحاد میں نہ صرف فرقہ پرست ذہنیت کے حامل بلکہ علاقائی سطح کی بے شمار سکیولر جماعتیں جو کانگریس سے بدظن تھیں اس این ڈے اے کے محاذ میں شامل ہوگئی۔اور جمہوری ہندوستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ فرقہ پرست جماعت کے سیاسی لیڈر کو وزیراعظم بننے کا موقع ملا۔اس وقت تک بھی بی جے پی پارٹی کے دو ہی ایسے نام تھے جو اپنی زہریلی تقریروں کی وجہہ سے سرخیوں میں رہا کرتے تھے ۔
حالانکہ بی جے پی کی اس وقت کی رتھ یاترا کی آڑ میں اوما بھارتی ‘ مرلی منوہر جوشی ‘ ونئے کٹیار جیسے لیڈران نے بھی سرخیاں بٹوری مگر جتنے شہرت واجپائی او راڈوانی کو ملی اتنی شہرت بی جے پی کے کسی او رلیڈر کو نہیں ملی۔ اس کی ایک او ر وجہہ یہ بھی تھی کہ ایمرجنسی کے دور سے جن سنگھ کے نظریہ کو فروغ دینے میں اٹل بہاری واجپائی نے کافی اہم رول ادا کیاتھا ۔
مگر واجپائی نہیں چاہتی تھے کے فرقہ پرست لیڈر کی جو شبہہ اٹل بہاری واجپائی کی شمالی ہندوستان اور ملک کے دیگر حصوں میں بنی تھی اس پر کوئی او رحاوی ہوجائے ‘ اور یہی وجہہ تھی کہ واجپائی کبھی بھی گجرات چیف منسٹر کی حیثیت سے نریندر دامودار داس مودی کی کارکردگی پر خوشی کا اظہار نہیں کیاتھا ۔
ہمیں یاد ہے جب بی جے پی جب مرکز میں اقتدار میں تھی اور سال 2002کے گجرات فسادات رونما ہوئے جس میں ہزاروں مسلمانوں کی جانیں گئیں‘ گھر جلائے دئے گئے ‘ خواتین کی عصمتوں سے کھلواڑ ہوا ‘ دوکان‘ مکان او رانسانوں کو زندہ جلادیاگیا‘ معصوم بچوں کو نیزوں پر اچھالاگیا‘ ماں کی کوکھ میں پل رہے بچی کو ماں کا پیٹ چیر کا نکالا اور تلوار کی نوک پر اچھالا گیا ۔
گجرات کے فرقہ وارانہ فسادات کا سلسلہ کچھ تھما تب اسی دوران اپنے گجرات دورے کے موقع پر میڈیا کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم کی سکیولر شبہہ کو بچانے کے لئے اس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے گجرات کی گدی پر فائز چیف منسٹر نریندر مودی سے کہاکہ تھا کہ’’ مجھے یقین ہے کہ نریندر بھائی راج دھرم نبھائیں گے‘‘جس کے جواب میں نریندرمودی نے کہاکہ تھا کہ جی ہاں میں راج دھرم نبھارہاہوں۔ خیر گجرات بربریت کے نقوش کبھی بھی مسلمانوں کے دل سے نہیں مٹ سکیں گے۔
اب پھر ایک اور مرتبہ بی جے پی اقتدار میں ہے اور اس وقت بی جے پی نئی سونچ ‘ نئی فکر اور عصری سہولتوں سے لیز ‘ کارپوریٹ پارٹی میں تبدیل ہوگئی ہے ۔ بی جے پی کی اس ترقی میں پارٹی کے ان قدرآور قائدین کو بھی فراموش کردیاگیا ہے جنھوں نے کبھی کہاتھا ’’ اس دھرتی کو سنتان ہونا پڑیگا‘ ‘ تو کبھی نعرہ لگایاتھا کہ ’’ ہندی ہندو ہندوستان ‘ بھاگو مسلمان پاکستان‘‘ اور نفرت کا ایسا زہر بویاتھاکہ آج بھی انہی کی پیدا کی گئی نفرت پر ملک بھر میں قتل وغارت گری ہورہی ہے ‘ کہیں گاؤ رکشہ کے نام پر قتل کیاجارہاہے تو کہیں لو جہاد کو بنیاد بناکر بے قصور مسلمانوں کی جانیں لی جارہی ہے ‘ تو کہیں ٹرین میں سفر کررہے معصوم مسلمانوں کو محض اس کے سر پر ٹوپی دیکھ کر نشانہ بنایاجارہا ہے۔
عصری دور کی بھارتیہ جنتا پارٹی( بی جے پی ) کے نئی سیاسی پارٹی ہیڈکوارٹر کا وزیراعظم نریند ر مودی کے ہاتھوں فبروری 18کو افتتاح عمل میںآیا۔ پارٹی کے نئے صدر امیت شاہ نے افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاتھا کہ یہ دنیاکی تمام سیاسی پارٹیوں کے دفتر سے بڑا ہے ‘ جہاں سے بیک وقت تمام ریاستوں کے پارٹی ہیڈکوارٹرس سے ربط قائم کیاجاسکتا ہے اور ویڈیوکانفرسنگ کے ذریعہ انہیں ہدایتیں جاری کی جاسکتی ہیں
۔یک لاکھ ستر ہزار اسکوئر فٹ پرمشتمل اس تین منزلہ پارٹی دفتر میں ستر کمرے ہیں جہاں پر وائی فائی کی سہولتیں ہیں۔مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ اس عصری ٹکنالوجی سے لیز پارٹی دفتر میں پارٹی کے ان قدیم اور ملک کے سب سے بڑے فرقہ پرست قائدین کی تصوئیروں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔
پارٹی کے اعلی قائدین کے لئے تیار کئے گئے مستقل شہ نشین کے عقب میں لگائی گئی فلکسی سے یہ بات صاف ہوگئی ہے کہ جنھوں نے بی جے پی کوپروان چڑھایا اور نفرت کی کھیتی بوائے جس کی فصل آج کے دور کی بی جے پی قائدین اقتدار کی شکل میں کاٹ رہے ہیں ‘ ویسے قائدین کو پوری طرح فراموش کردیاگیا۔
کیونکہ جس پارٹی دفتر کے اندر کے فلکسی کا ذکر ہم کررہے ہیں اس پر ناتو اٹل بہاری واجپائی ہیں اور نہ ہی لال کرشنا اڈونی کو شامل کیاگیا ہے محض چارلوگوں کی تصوئیریں ہیں ایک شیام پرساد مکھرجی ‘ دوسرے دین دیال اپادھیاےئے تیسرے نریند رمودی اور چوتھے امیت شاہ ۔
جہاں تک لال کرشنا اڈوانی کی بات ہے تو این ڈی اے دوم کے اقتدار میںآنے کے بعد انہیں بڑی امیدیں تھیں کہ وہ کابینہ کے کسی بڑے عہدے پر فائزکئے جائیں گے ‘ پھر اس کے بعد صدرجمہوریہ ہند کے انتخاب کامعاملہ آیا اس میں بھی لال کرشنا اڈوانی کو بری طرح نظر انداز کردیاگیا۔
ہوسکتا ہے ان کا پاکستان میں پیدا ہونا شائد راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ کو پسند نہیںآیا اس لئے انہیں نہ تو کابینی عہدے سے نوازا گیا اور نہ ہی جمہوری عہدے پر فائز کیاگیا۔
اور اٹل بہاری واجپائی سے ایسا لگ رہا ہے کہ نریندرمودی سال2002کے ’ راج دھرم نبھانے کی نصیحت ‘ پر آب تک اٹل بہاری واجپائی سے ناراض ہیں ‘ یہی وجہہ ہوگا ورنہ کیاشیام پرساد مکھرجی او ردین دیال اپادھیائے کے بعد اٹل بہاری واجپائی بی جے پی کے ایسے لیڈر نہیں ہیں ‘جنھوں نے بھارتیہ جنتاپارٹی کے بیچ سمندر میں طوفان میں گھیرے کشتی کو کنارے لگانے میں اہم رول ادا نہیں کیاہے؟
اگر یہ حقیقت ہے تو پھر کیو ں بی جے پی کے نئے پارٹی دفتر کے مذکورہ فلکسی میں اٹل بہاری واجپائی اور لال کرشنا اڈوانی کیو ں شامل نہیں کیاگیا۔ ویسے بھی قدرت کا قانون ہے کہ ‘ جہاں پر مظلوم بے بس ہوجاتا ہے وہاں پر ظالم سے بدلنے لینے کاکام قدرت کرتی ہے ۔
اگرچکہ کہ بی جے پی اقتدار میں ہے اور پوری شدت کے ساتھ اپنے نظریات کو نافذ کرنے کی کوششوں میں جٹی ہوئی ہے مگر آج اقتدار پر فائز لوگ یہ نہ بھولیں کے شمالی ہندوستان کے گلیوں میں رتھ یاترا کے دوران خون کی ہولی کھیلنے وقت اٹل بہاری واجپائی اور لال کرشنا اڈوانی خود کو لازوال سمجھ رہے تھے او روہی کام نریند ر مودی اور امیت شاہ کررہے ہیں۔
اٹل بہاری واجپائی اور لال کرشنا اڈوانی کے ساتھ پارٹی کے اندر جو سلوک کیاجارہا ہے اور جس طرح انہیں بی جے پی کی تاریخ سے ہٹانے او رمٹانے کا کام کیاجارہا ہے وہ اس لائق ہیںیا نہیں وہ تو 1990سے لیکر 2018تک کی بی جے پی کی تاریخ سے ظاہر ہوگا مگر یہ ان سیاسی قائدین کے لئے بھی ایک عبرت ناک بات ہے ‘ جو اقتدار کی برقراری کے لئے اپنی گندگی سونچ کو اس قدر پھیلادیتے ہیں کہ وہ سونچ ایک روز ملک کی سالمیت کے لئے ہی خطرہ بن جاتی ہے۔
یہا ں پر چلتے چلتے ایک او رنام بھی میں شامل کرلینا چاہتاہوں اور وہ نام ہے وشواہند وپریشد کے انٹرنیشنل ورکنگ پریسڈنٹ پروین توگاڑیہ کاجنھوں نے ماضی میں ایسی بہت ساری تقریریں کی جس کے ذریعہ آپسی بھائی چارہ متاثر ہوا‘ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچا اور آپسی نفرت میں اضافہ ہوا ۔
مگر آج وہ ہاشیہ پر پہنچ گئے ہیں۔ چند دن قبل پروین توگاڑیہ نے اپنی جان کو خطرے کا خدشہ ظاہر کیاتھا ۔لاپتہ ہونے کے بعد نیم بیہوشی کے عالم میں احمد آباد ائیرپورٹ کے راستے میں پر ملے پروین توگاڑیہ نے اسپتال سے پریس کانفرنس کے ذریعہ روتے بلکتے ہوئے نریندر مودی اور ان کے ساتھیوں کو کوسا تھا ۔
دوتین روز قبل یہ خبر بھی ائی کہ پروین توگاڑیہ کی بلٹ پروف گاڑی کو کسی نامعلوم ٹرک نے ٹکر مار دی جبکہ پروین توگاڑیہ کو زیڈ پلس سکیورٹی فراہم کی گئی ہے۔
اس سے بڑھ کر عبرت کیاہے کہ وہ لوگ جوملک کی مسلم اقلیتوں کے خلاف نفرت پھیلاکر کمزور ‘ اور معاشی طور پر پسماندہ مسلمانوں کو بھیڑ کے ہاتھوں نشانہ بنانے میں ماہر ہیں وہ خود آج سیاسی شہرت سے محروم گمنامی کی زندگی گذار نے پر مجبور ہیں یا پھر گلی گلی گھوم کر اپنے لوگوں کے ہاتھو ں اپنی جان کو درپیش خطرات کی دہائی دے رہے ہیں۔