خبر رساں ادارے روئٹرز نے افغان صدر اشرف غنی کے حوالے سے آج بدھ 30 جنوری کو بتایا کہ افغانستان میں قیام امن کی کنجی افغانستان میں ہے۔ جنگ سے تباہ حال اس وسطی ایشائی ملک کے صدر کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب افغان طالبان اور امریکا کے مابین امن مذاکرات میں ایک نئی تحریک دیکھی جا رہی ہے۔
اشرف غنی نے کہا کہ ’جنگ کی کنجیاں اسلام آباد، کوئٹہ، راولپنڈی اور پاکستان کے دیگر شہروں میں ہیں‘۔ ناقدین کے مطابق ان کا اشارہ اس پرانے الزام کی طرف ہے، جس میں کابل حکومت کا کہنا ہے کہ افغانستان میں پرتشدد کارورائیوں کے پیچھے پاکستان میں موجود شرپسند عناصر ہیں۔ تاہم پاکستان ان الزامات کو مسترد کرتا ہے۔
افغان طالبان کابل حکومت کے بجائے امریکا کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ان جنگجوؤں کے مطابق اشرف غنی کی حکومت بیرونی طاقتوں کی طرف سے مسلط کی گئی ہے۔ اس تناظر میں افغان صدر اشرف غنی نے آج بدھ کے دن کہا کہ اگر طالبان کے مطابق کابل حکومت جائز نہیں ہے تو طالبان کی کارروائیوں کو بھی مذہبی حوالے سے کیسے جائز قرار دیا جا سکتا ہے۔
اشرف غنی کے مطابق، ’’اگر افغان حکومت غیرقانونی ہے تو طالبان کو کس نے قانونی قرار دیا ہے؟ مکہ اور انڈونیشیا سے تعلق رکھنے والے اسلامک اسکلالرز خود کش حملوں اور شہریوں کے قتل کو ناجائز قرار دیتے ہیں تو بتائیں کہ طالبان کے پاس ایسے اعمال کا جواز کہاں سے آیا ہے؟‘‘
یاد رہے کہ کابل اور طالبان کے مابین براہ راست ہونے والے مذاکرات سن دو ہزار پندرہ میں منسوخ کر دیے گئے تھے۔
ادھر طالبان نے کہا ہے کہ وہ افغانستان کی مستقبل کی انتظامیہ میں اکیلے ہی اقتدار حاصل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے بلکہ افغان اداروں کے ساتھ مل کر رہنے کی امید کر رہے ہیں۔ قطر میں طالبان کے ایک ترجمان سہیل شاہین کے مطابق افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی کے بعد طالبان دیگر افغانوں کے ساتھ مل جل کر رہنے ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور بھائیوں کی طرح زندگی شروع کرنا چاہتے ہیں۔
طالبان کی طرف سے یہ اب تک کا سب سے زیادہ مفاہمتی بیان قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب امریکا افغان جنگ کے خاتمے کے لیے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔