ماسکو 17 ستمبر ( سیاست ڈاٹ کام ) روس کے صدر ولادیمیر پوٹین نے شام کے باغیوں پر آج الزام عائد کیا کہ وہ جنگ بندی کو اپنی طاقت مجتمع کرنے کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ امریکہ اور روس کے مابین شام میں انسانی بنیادوں پر دی جانے والی امداد کے فقدان کے مسئلہ پر کشیدگی میں اضافہ ہوگیا ہے ۔ جنگ زدہ ملک کے کچھ علاقوں میں کل رات میں شلباری اور جھڑپوں کی بھی اطلاع ملی ہے لیکن امریکہ ۔ روس نے جو معاہدہ کروایا ہے اس پر پیر سے عمل آوری ہو رہی ہے اور بحیثیت مجموعی یہ موثر ثابت ہوا ہے ۔ نیویارک میں اقوام متحدہ سلامتی کونسل نے ایک عجلت میں طلب کردہ اجلاس کو ملتوی کردیا ہے ۔ یہ اجلاس اس بات کا جائزہ لینے طلب کیا گیا تھا کہ آیا جنگ بندی کو تسلیم کیا جانا چاہئے یا نہیں۔ جو معاہدہ کیا گیا ہے اسے شام میں پانچ سال سے جاری جنگ بندی کو ختم کرنے کا آخری موقع سمجھا جا رہا ہے ۔
امریکہ اور روس نے بند کمرے کے اجلاس میں جنگ بندی کی تفصیلات سلامتی کونسل کو بتانے سے گریز کیا تھا جس کے بعد بات چیت کو ملتوی کردیا گیا تھا ۔ پوٹین شام کے صدر بشار الاسد کے قریبی ساتھی ہیں اور انہوں نے اس جنگ بندی کے تعلق سے مثبت امیدوں کا اظہار کیا ہے ۔ انہوں نے تاہم باغیوں پر تنقید کی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ باغیوں کی جانب سے جنگ بندی کی معیاد کو اپنی طاقت مجتمع کرنے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ اپنے انداز کو بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پوٹین فی الحال کرغزستان کے دورہ پر ہیں۔ پوٹین نے کہا کہ امریکہ مسلسل صدر بشارالاسد کی قانونی حکومت سے مقابلہ کو ترجیح دے رہا ہے اور یہ خطرناک راستہ ہے ۔ ماسکو نے کل کہا تھا کہ وہ جنگ بندی میں مزید 72 گھنٹوں کی توسیع کیلئے تیار ہے لیکن کسی توسیع کے تعلق سے کوئی باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا ہے ۔ کہا گیا ہے کہ جہادیوں کی بڑی تعداد میں موجودگی کے نتیجہ میں جنگ بندی کا عمل پیچیدہ ہوگیا ہے ۔ روس کے بموجب جہادیوں کا جنگ بندی میں احاطہ نہیں کیا گیا ہے اور اصل باغی بھی اپنے محاذوں پر سرگرم ہیں۔ امریکی سکریٹری آف اسٹیٹ جان کیری نے اس دوران اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاروف سے ملاقات کی اور انہوں نے انسانی بنیادوں پر فراہم کی جانے والی امداد کی مسلسل اور ناقابل قبول تاخیر پر تقنید کی ہے ۔