جنون او رحیوانیت کی حد سے گذرتے ہوئے ۔ تبسم فاطمہ

ہندوتوا کے جشن کی تاریخ راجستھان میں ہونے والی درندگی کے بعد اپنی انتہا کو پہنچ گئی ہے
شمبھولال صرف ایک نام ہے ۔ او ریہ کسی ایک شخص کا نام نہیں ہے۔ بلکہ یہ نام ان چاربرسوں میں فسطائی طاقتوں کے عروج کی علامت بن کر سامنے آیا ہے ۔ آپ شمبھولال کی جگہ ہزاروں ان ناموں کولکھ سکتے ہیں جو شمبھولال کی حمایت میں سوشیل ویب سائٹس پر ہندو تو ا یا زعفرانی طاقتوں کی نمائندگی کررہے ہیں۔یہاں اشتعال انگیز نعرے ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ بار باراسی سلوک کو دہرانے کی بات کہی گئی ہے۔ شمبھولال جنتا بڑا جرم او رگنہگار ہے ۔ اس سے کم مجرم یا گنہگار وہ لوگ نہیں جو ایک خوفناک قتل کی واردات کو صحیح ٹھراتے ہوئے سوشیل ویب سائٹس پر اس سوچ کے ساتھ ائے ہیں کہ ان کی اپنی حکومت ‘ ان کی وفاداری اور مسلمانوں کو ہندوستان سے مٹانے کے عزم کی تائید توکرسکتی ہے ‘ مخالفت نہیں کرسکتی۔ایسی کچھ ہندو تنظیمیں ہیں جو یہ سوچتی ہیں کہ مسلمانوں کی تہذیب وتاریخ کو مسخ کرنے کے ساتھ ان کو کمزور کرنے یا ہندومذہب میں واپسی کے لئے ایسا سلوک یا ایسے حادثے ضرورہیں۔ اور یہ کوئی نئی بات اس لئے نہیں ہے کہ مسلمانوں کی ہزار برسوں کی تاریخ میں ہندوؤں کے ساتھ بار بار ہوتا رہا ہے۔ اب سوال ہے کہ کیا واقعی مسلمان بادشاہوں کی ہزار برسوں کی تاریخ میںیہی ہوتا رہا ہے ؟تو جھوٹ کے پلندے کے سوا کچھ نہیں۔

اب نئی تاریخ لکھی جارہی ہے۔ جہاں پورس کو ہندوستان کا پہلا رکشک بتایاجارہا ہے ہندوستانیوں کو منگولوں کے ظلم سے بچانے والے علاؤ الدین خلجی کو ایک عیاش حکمراں سے بھی زیادہ راکشس کے طور پر پیش کیاجارہا ہے ۔ مغل بادشاہ لوٹ کے ارادے سے ائے ہوتے تو اپنے وطن لوٹ گئے ہوتے۔ملک کا مذاق ان دنوں اڑ جناب منی شنکر ائیر کے نیچ کہنے پر وزیراعظم نے عام گفتگو میں بولے جانے والے اس لفظوں کومغلوں سے جوڑدیا او راس بات کا اشارہ کیاکہ مغلیہ حکومت کے سات سو برس میں ہندوؤں کے ساتھ نیچتا کا مظاہرہ ہوتارہا ہے۔

منی شنکر ائیر نے صرف نیچ کہاتھا۔وزیر اعظم کی جملہ بازی نے نیچ کے ساتھ ذلت لگاکر شمبھولال جیسے ہزاروں انتہا پسندوں کو شہہ دیاکہ وہ مسلمانوں کے لئے نفرت وحقارت میں کوئی کمی نہ رکھیں۔آج گجرات بارود کے ڈھیر پر کھڑا ہے اور اس کے شعلے لپکتے ہوئے ہندوستان کی فضاء میں پھیلتے جارہے ہیں۔ ان چار برسوں میں مسلمانوں کی ہلاکت کا جوسلسلہ دادری کے محمد اخلاق سے شروع ہوا ‘ اب پہلو خان‘ حافظ جنید‘ عمر جان سے آگے نکل کر راجستھان کے افرازالاسلام تک پہنچ گیا ہے۔گاؤ رکشا کے نام پر دیگر ہجوممی حملوں میں سینکڑوں نے گناہوں کا قتل کیاجاچکا ہے۔

یہ کہاجاسکتا ہے کہ صرف مسلمان دلت یا عیسائی ہی نہیں بلکہ اس ملک کے سیکولر اور جمہوری اقدار پر یقین کرنے والے عوام بھی حیرت اورخوف سے فرقہ پرستی او رحیوانیت کے اس تماشے یا جشن کو دیکھ رہے ہیں جو اس سے پہلے اس ملک میں کبھی نہیں ہوئے۔ ہندوتوا کے جشن کی یہ نئی تاریخ راجسمند راجستھان میں ہونے والی درندگی کے بعد اپنی انتہاکو پہنچ گئی ہے۔ راجسمند میں جو کچھ ہوا اس کا ذمہ دار کون ہے؟ ایک شخص ایک مسلمان مزدور کو لے کر جنگل میں جاتا ہے ۔ ویڈیو گرافی کے لئے اپنے بھتیجے کو ساتھ لے جانا نہیں بھولتا۔ وہ مسلمان مزدوور کے ٹکڑے ٹکڑے کرتا ہے۔ اس بے گناہ مسلمان شخص کی چیخیں گونجتی ہیں مگر شمبھولال اور اس کے بھتیجے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ شمبھولال اپنا اشتعال انگیز بھڑکاؤ بیان دیتا ہے اور پھر اس ٹکڑے ٹکڑے لاش کو جلادیتا ہے ۔میڈیا خاموش رہتی ہے۔ ٹی وی چینل اس حادثے کو دکھانا اور اس پر گفتگو کرنا ضروری نہیں سمجھتے۔

راجستھان کی بھگوا حکومت خاموش رہتی ہے اور اس لئے بھی خاموش رہتی ہے کہ ان چار برسوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول پیدا کرنے میں وزیراعلی وسندرا رجے سندھیا کا بھی ہاتھ رہا ہے ۔ کیاراجستھان میں جو حادثہ ہوا وہ اتنی چھوٹی بات ہے کہ اسے دبادیاجائے؟حکومت او رمیڈیا نے حادثے کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی مگر ہندوتوا کے محافظوں نے سوشیل ویب سائٹس پر اس ہلاکت کو وجئے ابھیان کے طور پر لیا۔ تقسیم کے وقت ک درندگی میں نے کتابوں میں پڑھی ہے۔مگر اس وقت کا ماحول دوسرا تھا۔ دوقومی نظریہ کی بنیاد پر ایک ملک دوحصہ میں تقسیم ہوا تو ہندوستان ایک دوسرے کے ایسے دشمن بن گئے کہ دونوں طرف ریل گاڑیاں انسانی لاشوں کو لے کر آیا کرتی تھیں۔

اس وقت دشمنی او رانتقام کی سیاست اور نفسیات اپنا اثر دیکھا رہی تھی۔ میرٹھ میں پی آر سی کے نوجوان چار مسلمانوں کو بندوق کے نوک پر لے گئے اور انہیں ہلاک کردیا ۔ اس وقت دنگے بھڑکے ہوئے تھے۔ آزادی کے ستر برسوں میں فرقہ وارانہ فسادات اور نفرت کی کہانیاں بار بار دہرائی گئیں لیکن ان چار برسوں میں فرقہ وارانہ فسادات کی نوبت اس لئے نہیں ائی کہ اس بار فسطائی طاقتوں کاسیدھا شکار مسلمان ہیں۔اپنے ان گھروں میں سہمے ہوئے مسلمان ‘ اخبارات او رمیڈیا سے ڈرے ہوئے مسلمان کے پاس نہ ہمت ہے نہ حوصلہ نہ جرات ۔ بلکہ مذہبی شناخت کی حفاظت او رزندگی کو کسی بھی طرح ظالموں کے شر سے محفوظ رکھنا ہی مقصد رہ گیا ہے اور اس کے باوجود یہ مسلمان کہیں ریل گاڑیوں سے پھیکے جارہے ہیں ‘کہیں ان پر گولیاں برسائی جارہی ہیں اور کہیں یہ بے گنا مسلمانوں گاؤ رکشکوں کے مظالم کا حصہ بن رہے ہیں۔درندگی اور حیوانیت کی اس نئی تاریخ میں شمبھولا کانام سامنے آیا ہے۔

لیکن یہ کوئی نام نہیں ہے۔ یہ کوئی اکیلا نام نہیں ہے ۔ یہ نفرت اور انتقام سے لبریز اس ہندوکا شہرہ ہے ‘جسے ان چار برسوں میں حکومت کابینہ اور آر ایس ایس کی طرف سے بار بار مسلمان دشمنی کے لئے اکسایاگیا ہے۔ جسے باربار غزنوی کبھی غوری کبھی خلجی کبھی مغل بادشاہوں کا نام لے کر یہ بتانے کی کوشش کی گئی مسلمان لٹیرے تھے اور لٹیرے ہیں۔مسلمان کبھی محب وطن نہیں ہوسکتے۔یہاں ہزار برسوں کی تاریخ بتاتے ہوئے آر ایس ایس او رمودی کابینہ نے کبھی دوسو برسوں کے برٹش راج کا تذکرہ نہیں کیا۔ آر ایس ایس کے لوگ انگریزوں کے وفادار رہے ۔ ترنگا سے زیادہ انہیں زعفرانی جھنڈا پیارا رہا ۔ گاندھی کے دشمن گوڈسے کو بھگوان مانتے رہے۔ مسلمانوں کے خلاف گجرات میں لگے ہوئے بیانر اس بات کی گواہ ہیں کہ صرف گجرات نہیں بلکہ ہندوستان کی اکثریت میں مسلمانوں کے خلاف کیسازہر بھرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ پوچھا جارہا ہے کہ آپ کو رام چاہئے یاحج؟۔گجرات انتخابات کے نتائج کا کیا ہونگے یہ کہناابھی مشکل ہے ۔

لیکن گجرات کے بہانے فسطائی طاقتوں کا جو خوفناک چہرہ سامنے آیا ہے اسے دیکھتے ہوئے کہنا مشکل نہیں کہ لوک سبھا 2019کے انتخابات تک ملک کی فضاء کچھ زیادہ ہی گرد الود اور خطرناک ہوسکتی ہے۔ کیونکہ کسی بھی طرح کامیابی حاصل کرنے کے جنون اور کھلے عام کھیل میں وکاس کو کنارے کردیاگیا ہے او رفرقہ پرستی کے طوفان کو آگے۔ اچھی بات اس درمیان صرف یہ ہوئی کہ ملک کے عوام کے سامنے آر ایس ایس او رمودی کا چہرہ پوری طرح بے نقاب ہوگیا ہے