اجتماعی ابرویزی کی شکار’ نادیہ مراد‘ کو نوبیل کا امن ایوارڈ دیے جانے کے اعلان کا اثر ہے کہ اب سوشیل میڈیا پر’ می ٹو‘ کے نام سے ایک مہم کے ذریعہ ہندوستان میں بھی خواتین کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتیوں کا انکشاف کررہی ہیں۔جس کی وجہہ سے گذشتہ چار دنوں میں سے ایک زلزلہ سا آیا ہوا ہے۔
فلمی صنعت کے علاوہ ذرائع ابلاغ کی ’ قابل قدر‘ شخصیتیں نشانے پر ہیں۔ قومی سطح پر بحث ومباحثہ شروع ہوگیا ہے او رکئی رضاکار تنظیمیں جنسی ہراسانی کے خلاف متحرک ہوگئی ہیں۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 2015میں نادیہ مراد جب دہشت گردتنظیم کے چنگل سے آزادہوکر دنیا کے سامنے اپنی روداد سننا رہی تھیں ا سوقت سننے والوں کے رونگٹے بھی کھڑے ہوگئے تھے کہ کس طرح اس پر ظلم وستم کے پہاڑ ٹوٹے ہیں اوران کے ساتھ 1300یہودی عورتوں کو یرغمال بنانے اور ان کی اجتماعی ابروریزی کی داستان سامنے ائی تھی۔
پھر نادیہ مراد نے اپنی سوانح حیات ’ دی لاسٹ گرل ان مائی اسٹوری آف کیپٹی ویٹی اینڈ مائی فائیٹ اگیسنٹ دی اسلامک اسٹیٹ‘ میں بھی اسکی پور ی تفصیلات درج کی ہیں کہ کس طرح مذہب کے نام پر انسانیت کی تباہی ہورہی ہے۔
اس نے یہ بھی انکشاف کیاتھا کہ وہ ایک مسلم خاندان کی مدد ہی سے اس دہشت گرد تنظیم کے چنگل سے آ.اد ہونے میں کامیاب ہوئی تھیں۔اس کتاب میں پوری تفصیل ہے کہ جس طرح نام نہاد اسلام کے نام لیوا اسلامی شناخت کو مسخ کررہے ہیں۔
عراق میں جس طرح داعش نے یزیدی خاندان کے خلاف ستم ڈھائے ہیں‘ اس کی اجازت کبھی اسلام نہیں دیتا ۔ مختصر یہ کہ اس بار جب نوبیل ایوارڈ برائے کا اعلان ہوا اور نادیہ مراد کو مشترکہ طورپر یہ ایوارڈ دیاگیا تو مجھے دلی خوشی ہوئی کہ اس انعام کا پیغام یہ ہے کہ ہم سب جنسی استحصال او رجنسی تشدد کے خلاف صد بند ہوں۔واضح ہوکہ بین الاقوامی بین الاقوامی سطح پر نوبل انعام کو ایک غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے۔
مختلف شعبہ حیات میں کام کرنے والوں سرکردہ شخصیات کو ہر سال یہ انعام دیاجاتا ہے۔ سائنس ‘ ادب ‘ اور امن کے لئے اس سال بھی کئی نامو ر شخصیات کو نوبل انعام سے نوازا گیا ہے‘ لیکن سب سے زیادہ بحث ومباحثہ انعام برائے امن پر ہورہا ہے کیونکہ2018کے ایوارڈ برائے امن جن شخصیات کو دیاگیا ہے ان کا دونوں کا میدان عمل ایک جیسا ہے۔
واضح رہے کہ ا س سال جنسی تشدد اور جنسی استحصال کے خلاف آواز بلند کرنے والے ڈاکٹرڈینس موک ہیگے اور نادیہ مراد کوک دیا گیاہے۔
ڈاکٹر کاتعلق کانگو سے ہے۔ جن کی خدمات کو بین الاقوامی سطح پر سراہا جاتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح نادیہ مراد نے بھی جنسی تشدد کے خلاف دنا کو صف بند کرنے کی کوشش کی ہے۔قابل غور بات یہ ہے کہ نادیہ مراد خود جنسی تشدد کاشکا ر ہیں۔
نادیہ کا تعلق عراق سے ہے او راسے داعش نے اغواکرلیاتھااو ر پھر یہ اجتماعی عصمت ریزی کاشکار ہوئی تھیں۔ نادیہ نے اپنے ہوئے مظالم سے نہ صرف دنیا کو واقف کروایا بلکہ اس کے خلاف تحریک بھی شروع کی۔
اسی طرح کانگو کے ڈاکٹر جس کو ایوارڈ سے نوازا گی ہے نے یو این میں اجتماعی ابرویزی کے خلاف قانون بنانے کی تجویز کے بعد سرخیوں میں ائے تھے۔
نوبل انعام برائے امن جو ہمیشہ سے ہی تنازعات کا شکا ر رہتا ہے مگر اس مرتبہ اس کا بہترین یہ اثر ہوا ہے کہ ہندوستان میں بھی جنسی تشدد‘ استحصال اور ہراسانیوں کا مختلف مواقعوں پر شکار خواتین کھل کر اس بات کرنے کے لئے آگئے ائی ہیں۔
ہندوستان میں شرو ع ہوئی می ٹو مہم نے فلمی صنعت کے نامور اداکاروں اور ذرائع ابلاغ کے بااثر لوگوں کے اطراف واکناف کا گھیرا تنگ کردیا ہے۔
اس پر دنیا بھر میں بحث او رمباحثہ چل رہا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ کسی رائیل اکیڈیمی یا نوبل انعام کے بعد ہی ہندوستانی خواتین متحرک ہوئی ہیں اورنادیہ مراد کی طرح اپنی ذاتیات کو دنیا کے سامنے بے جھجھک پیش کیاہے