علیگڑھ ؍ لکھنؤ ۔ 2 مئی (سیاست ڈاٹ کام) علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے احاطہ میں آج تشدد پھوٹ پڑا جبکہ محمد علی جناح کی تصویر کے بارے میں انتہاء پسند دائیں بازو نے احتجاج کیا اور دو بی جے پی قائدین کے درمیان زبانی تکرار ہوگئی۔ تقریباً 6 افراد زخمی ہوئے جبکہ پولیس نے یونیورسٹی طلبہ کو منتشر کرنے کیلئے آنسو گیس کے شیل داغے۔ طلبہ احتجاجیوں کی گرفتاری کا مطالبہ کررہے تھے جنہوں نے قبل ازیں یونیورسٹی کے احاطہ میں نعرہ بازی کی تھی۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ نے الزام عائد کیا کہ احتجاجی ہندو یووا واہنی سے تعلق رکھتے تھے اور انتباہ دیا کہ انہیں پولیس اسٹیشن سے باہر نکل جانا چاہئے جبکہ انہیں گرفتار کیا گیا تھا اور بعدازاں ابتدائی حراست کے بعد رہا کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ قبل ازیں دن میں بی جے پی کے ایک رکن پارلیمنٹ نے مطالبہ کیا کہ یوپی کے وزیرمحنت سوامی پرساد موریہ کو پارٹی سے خارج کردیا جائے کیونکہ انہوں نے جناح کی ستائش کی تھی لیکن ریاستی وزیر نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کسی بھی وقت ایسا نہیں کیا۔ ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے بموجب ریاستی وزیر نے جناح کو ’’مہاپرش‘‘ (عظیم شخصیت) غیرمنقسم ہندوستان کی قرار دیا تھا۔ موریہ نے مبینہ طور پر ان کی ستائش کی تھی جبکہ ان کے تبصرہ پر ایک دوسرے بی جے پی رکن پارلیمنٹ ستیش گوتم نے ہنگامہ کھڑا کردیا تھا۔ انہوں نے اعتراض کیا تھا کہ جناح کی تصویر جو مسلم یونیورسٹی کی دیواروں پر آویزاں ہیں، نکال دی جائے۔ ریاستی وزیر نے آج ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ انہوں نے ایسا کوئی بیان نہیں دیا تھا۔ راجیہ سبھا کے رکن ہرناتھ سنگھ یادو نے ان سے بیان دینے کی درخواست کی تھی۔ ریاستی وزیر سوامی پرساد موریہ جنہوں نے محمد علی جناح کو ایک نفرت انگیز مجرم قرار دیا جنہوں نے ملک کے تین ٹکڑے کردیئے۔ وہ کوئی عظیم شخصیت کیسے ہوسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر انہوں نے ایسا کوئی بیان دیا ہے تو وہ اس سے دستبرداری اختیار کرتے ہیں اور معذرت خواہی کرتے ہیں یا پھر انہیں پارٹی سے فوری خارج کردیا جائے لیکن جب اخباری نمائندوں نے جناح کے بارے میں ان کے تبصرہ کی وضاحت طلب کی تو موریہ نے اناؤ میں ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کو بے بنیاد قرار دیا اور کہا کہ کسی بے ایمان نے یہ بات کہی ہوگی۔ یادو نے اپنے موریہ دشمن ٹوئیٹر پیغام میں جو وزیراعظم نریندر مودی، بی جے پی کے قومی صدر امیت شاہ، چیف منسٹر یوپی یوگی ادتیہ ناتھ، یوپی بی جے پی کے صدر مہندر ناتھ اور پارٹی قائد سنیل بنسل کو روانہ کیا گیا ہے۔ راجیہ سبھا رکن پارلیمنٹ نے ایک اور ٹوئیٹر بیان میں کہا کہ جناح کی تصویر جس نے ہندوستان کے تین ٹکڑے کردیئے، مسلم یونیورسٹی کی دیواروں پر کیسے آویزاں کی جاسکتی ہے جبکہ یونیورسٹی کی دیواروں پر بھارت ماتا کی جئے اور وندے ماترم نہیں لکھا جاسکتا۔ آج تشدد مرکزی وزیر مختارعباس نقوی کے اس بیان کے بعد پھوٹ پڑا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ تصویر کے مسئلہ کی خوشگوار طریقہ سے یکسوئی کرلی جائے گی۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے اصل دھارے کے طلبہ محب وطن ہیں اور ان کے اس قسم کے سوالات اٹھانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ان کی حب الوطنی پر شک نہیں کیا جاسکتا۔ مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور کے بیان کے بعد یونیورسٹی کے پراکٹر محسن خان نے کہا کہ واہنی کارکنوں کا ایک چھوٹا سا گروپ 2 بجے دن یونیورسٹی کے چوراہے پر پہنچا جو وائس چانسلر کے دفتر سے کچھ ہی دور واقع ہے۔ صیانتی عملہ نے نعرہ بازی کرنے والے گروپ پر قابو پا کر انہیں سیول لائنس پولیس اسٹیشن منتقل کردیا اور انہیں پولیس کے حوالے کردیا لیکن بعدازاں ایک بڑا گروپ پولیس اسٹیشن پہنچا اور اس نے اپنے حامیوں کے ساتھ جلوس نکالنے میں کامیابی حاصل کرلی۔ بعدازاں یہ جلوس باب سید گیٹ پر پہنچا اور چند ملازمین پولیس انہیں احاطہ میں داخل ہونے سے روکنے سے قاصر رہے۔ پولیس کے مقامی سپرنٹنڈنٹ اتل سریواستو نے کہاکہ یہ لوگ یونیورسٹی کے اطراف جمع ہوگئے تھے اور صیانتی انتظامات میں شدت پیدا کردی گئی۔ مسلم یونیورسٹی کے ترجمان شفیع قدوائی نے تصویر آویزاں کرنے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ جناح کو طلبہ یونین کی تاحیات رکنیت اس وقت عطا کی گئی تھی جبکہ انہوں نے ملک کی تقسیم کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔