جناب زاہد علی خاں قوم کے عظیم رہنما، باوقار صحافی اور کامیاب سوشل ریفارمر

’’شام سوغات‘‘ کے عنوان پر جلسہ اعترافِ خدمات ، ڈپٹی چیف منسٹر محمد محمود علی، جناب کنگ شک ناک، پرشانت چنتالا اور دیگر کا خطاب

==     غریبوں کی خدمت میری آرزو، مسلمانوں کی ترقی میرا لائحہ عمل
==     عوام کی جانب سے محبت و شفقت کی نوازش پر سب سے زیادہ خوشی
==     روزنامہ سیاست کی فلاحی سرگرمیوں کے ثمرآور نتائج: ایڈیٹر سیاست
حیدرآباد ۔ 3 ؍ اپریل ( سیاست نیوز) جناب محمد محمود علی ڈپٹی چیف منسٹر حکومت تلنگانہ نے جناب زاہد علی خان ایڈیٹر سیاست کی ملی ‘ سماجی‘ تعلیمی اور عظیم صحافتی خدمات کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے  جذبہ خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ زندگی کے مختلف شعبوں میں مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کی ہے اور اپنے تاریخ ساز کارناموں کے ذریعہ ملک بھر میں نمایاں مقام حاصل کیا ہے ۔ اِن کی خدمات کے لئے جو ایوارڈس پیش کئے گئے ہیں وہ ایوارڈس اُن کے لئے کوئی اعزاز نہیں بلکہ زاہد صاحب کو ایوارڈس پیش کرنے میں ایوارڈس کی قدر و قیمت میں اضافہ ہوا ہے ۔ ان خیالات کا اظہار جناب محمد محمود علی نے کل شام ایوان فنکار و فولس پیراڈائیز کلچرل اینڈ ویلفیر سوسائٹی حیدرآباد کے زیر اہتمام اُردو ہال حمایت نگر میں منعقدہ جلسہ اعتراف خدمات و تہنیت کو مخاطب کرتے ہوئے کیا ۔ شام سوغات سے موسوم اس جلسہ میں دانشوروں اور مقررین کرام نے جناب زاہد علی خان کی غیر معمولی خدمات پر اظہار خیال کیا ۔ جناب کنگ شاگ ناگ ریسیڈنٹ ایڈیٹر ٹائمس آف انڈیا حیدرآباد نے صدارت کی ۔ ڈپٹی چیف منسٹر نے سلسلہ تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا کہ زاہد صاحب کے کارناموں کی ایک طویل فہرست ہے ۔ انہوں نے 3000 سے زائد لاوارث مسلم نعشوں کی تدفین  کے ذریعہ ایک منفرد خدمت انجام دی ہے ۔ مسلم لڑکوں اور لڑکیوں کی شادیوں کے سلسلے میں رشتے طئے کرنے کے لئے انہوں نے دو بہ دو ملاقات پروگرام کا آغاز کیا جس کے ذریعہ سینکڑوں پیامات طئے ہوئے ہیں ۔ اس پروگرام سے استفادہ کے لئے ملک کی ریاستوں بلکہ امریکہ میں مقیم حیدرآبادی خاندان بھی استفادہ کر رہے ہیں۔ فضول خرچی اور اسراف سے بچنے کے لئے جناب زاہد صاحب نے ایک کھانا اور ایک میٹھا ‘‘ کا جو نعرہ دیا ہے اُ س سے معلوم ہوتا ہے کہ زاہد علی خان ملت اسلامیہ کے رہبر ہی نہیں بلکہ ایک ریفارمر بھی ہیں ۔ جناب محمود علی نے انکشاف کیا کہ اُن کی اپنی پوتری کی شادی  مسجد میںکی گئی اور کابینی وزراء اور ریاست کے اعلیٰ عہدیدار اور خود چیف منسٹر بھی اس سادہ تقریب میں شریک رہے ۔ یہ کوئی معمولی کارنامہ نہیں ہے ۔ اِس کا سہرا جناب زاہد علی خان کے سرجا تا ہے ۔ محمد محمود علی نے کہا کہ تلنگانہ تحریک میں ریاست کے کئی اخبارات نے دوہرا معیار اختیار کیا تھا لیکن سیاست وہ واحد اخبار ہے جو ابتداء ہی سے تلنگانہ تحریک کی مکمل تائید کرتا رہا ہے ۔ تلنگانہ کی تشکیل میں جناب زاہد علی خان اور سیاست کے تاریخی رول کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا ۔ سیاست نے ملت کے ہر مسئلہ پر آواز اُٹھائی ہے اس لئے سیاست کو ایک اخبار ہی نہیں بلکہ ایک مشن اور ایک تحریک کی حیثیت حاصل ہے ۔ جناب کنگ شک ناگ نے اپنی صدارتی تقریر میں جناب زاہد علی خان کو ایک باوقار صحافی اور سوشیل رفارمر قرار دیا ۔ انہوں نے کہا کہ زاہد صاحب کی شخصیت میں اعتدال ‘ توازن ’ اور ملنساری جیسے اوصاف نمایاں ہیں ۔ اُنکی ملاقات 1991 سے ہے ۔ انہیں سابق وزیراعظم پی وی نرسمہاراؤ کے بیرونی دورے میں زاہد صاحب سے قریب ہونے کا موقع ملا اور اُن کا تاثر رہا کہ زاہد صاحب سیاست کے ایڈیٹر ہونے کے باوجود زندگی کے معاملات میں سیاست نہیں کرتے اور سیاست کے داؤ پیج سے انہوں نے ہمیشہ اپنے دامن کو بچائے رکھا ۔ عوامی مسائل پر اُنکی گہری نظر ہے ‘ علحدہ تلنگانہ کی جدوجہد میں اُن کے اخبار نے رائے عامہ کی تشکیل میں سیاستدانوں سے زیادہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ صحافت سے وابستہ ہونے کے باوجود ’ وہ اپنے خدمت خلق کے مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں‘ ۔  جناب پرشانت چنتالا ریسڈنٹ ایڈیٹر دی ہندو ‘ پروفیسر انیس الحق  قمر معتمد مولانا آزاد مشن ناندیڑ اور جناب  محمد عبدالرحیم خان معتمد انجمن ترقی اُردو نے مہمانان خصوصی کی حیثیت شرکت کی ۔ ابتداء میں ڈاکٹر حمیرہ سعید نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ ڈاکٹر معین امر بمبو نے فولس پیراڈائیز کلچرل اینڈ ویلفیر سوسائٹی کا تعارف کروایا ۔ ڈاکٹر جاوید کمال کنوینر جلسہ نے اشعار کے ذریعہ نہایت عمدگی کے ساتھ کارروائی چلائی ۔ جلسہ کا آغاز حافظ و قاری سید شوکت اللہ غوری کی قراء ت کلام سے ہوا ۔ ڈاکٹر طیب پاشاہ قادری نے بارگاہ سالت میں ہدیہ نعت پیش کیا ۔ جناب زاہد علی خان ایڈیٹر سیاست نے اُنکے اعزاز میں پیش کردہ تہنیت اور مقررین کے تاثرات پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک معمولی انسان ہیں اور اُنکے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے وہ خود کو اس کا اہل نہیں سمجھتے لیکن اُن کی آرزو رہی ہے کہ وہ غریبوں کی خدمت کریں خاص طور پر مسلمانوں کی خدمت کرنا اُن کا لائحہ عمل ہے ۔ کیونکہ آج مسلمان بے شمار مسائل سے دو چار ہیں ۔ تعلیمی پسماندگی نے ملت اسلامیہ کو کئی محرومیوں سے دو چار کر دیا ہے ۔ معاشی حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں ہمارا سماجی رتبہ کمزور اور غیر مستحکم ہے ۔ ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے ہر دردمند انسان کو کوشش کرنا چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ ان کی خدمات کے سلسلے میں انہیں امریکہ میں کارنامہ حیات ایوارڈ دیا گیا ۔ لندن میں بھی انہیں ایوارڈ سے نوازا گیا ۔ دہلی میں محمد علی جوہر ایوارڈ دیا گیا لیکن مسلم مرر ایوارڈ کی اہمیت اس لئے زیادہ ہے کہ یہ ایوارڈ امریکہ کی ایک بڑی شخصیت ’’ فرینک اسلام ‘‘ کے ہاتھوں حاصل کرنے کا موقع ملا جو ایک بڑے صنعت کار ہیں ۔