جموں کشمیر میں پی ڈی پی او راین سی علیحدگی پسندوں کی سونچ کو بڑھاوا دے رہے ہیں

مجالس مقامی کے انتخابات کا بائیکاٹ علیحدگی پسندوں کی سونچ کو حق بجانب قراردینے کی منظوری دینے کے مترادف ہوگا‘ جوکہتے ہیں کہ ریاست کا تمام انتخابی عمل غیر قانونی ہے اور عوام کے مرضی کے عین خلاف ہے۔

پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس کے اس بائیکاٹ کے ساتھ ہی خود کو محدود کررہے ہیں اوراس کے بعد وہ علیحدگی پسندوں کے مرہون منت بن جائیں گے۔

مرکز نہایت محتاط انداز میں جموں کشمیر کے اندر جمہوری امن قائم کرنے کے لئے میدان میں کام کررہی ہے جولگ رہا ہے اب تعطل کاشکار ہوجائے گا۔نیشنل کانفرنس نے اب کہا ہے کہ وہ مجالس مقامی او رپنچایت الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے۔

یہ ایک ایسے وقت میں کہاگیاہے جب کہ ریاست میں حساس نوعیت کا وقت چل رہا ہے‘ جس کی وجہہ سے نہ صرف پولیس کے خلاف نشانہ بنانے کا تشدد شروع ہوگیا ہے اسی طرح بڑی انتظامی تبدیلیاں بھی ہورہی ہیں

۔مرکز نے اس امید کے ساتھ کہ نیاگورنر ایس پی ملک کے تقرر کے ساتھ سیاسی عمل کو آگے بڑھائے گی ‘پچاس میں پہلی مرتبہ ایک سیاست داں کا تقرر عمل میں لایا ہے۔

مسٹر ملک کی زمین سطح سے جمہوریت کو دوبارہ نفاذ کرنے کی شروعات کی ‘ مگر یہ اب پیچھے رہ گئی کیونکہ اس کے ساتھ کوئی منسلک نہیں ہورہا ہے۔

مذکورہ نیشنل ڈیموکرٹیک الائنس کی حکومت کو صاف امید تھی کہ وہ بی جے پی اور پی ڈی پی میں اتحاد ختم ہونے کے بعد زبردست ماحول پیدا کرتے ہوئے آگے بڑھے گی ‘ پنچایت الیکشن میں بڑی پارٹیوں کی عدم موجودگی غیریقینی صورتحال کا سبب بن گئی۔

مرکز کا تازہ مرحلہ ارٹیکل35اے پر ہے‘ جس ریاست میں باہر کے کوئی بھی فرد غیر منتقل ہونے والی جائیداد کشمیر میں خرید نہیں سکتا۔اس ارٹیکل کو عدالت میں چیالنج کیاگیا ہے۔

مجالس مقامی کے انتخابات کا بائیکاٹ علیحدگی پسندوں کی سونچ کو حق بجانب قراردینے کی منظوری دینے کے مترادف ہوگا‘ جوکہتے ہیں کہ ریاست کا تمام انتخابی عمل غیر قانونی ہے اور عوام کے مرضی کے عین خلاف ہے۔

پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس کے اس بائیکاٹ کے ساتھ ہی خود کو محدود کررہے ہیں اوراس کے بعد وہ علیحدگی پسندوں کے مرہون منت بن جائیں گے۔

اب بھی دونوں کے پاس وقت ہے کہ وہ اپنی کاروائیوں پر نظر ثانی کریں اور مرکز کو ا ن کی مدد کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ بڑے نقصان کے بغیر وہ کوئی راستہ نکال سکیں۔

اس سے صاف طور پر ان کی زندگیوں کے لئے خطرہ پیدا ہوگیاہے جو الیکشن میں حصہ لینے کا راہ تلاش کررہے ہیں۔تمام محاذوں پر اسکو روکنے کے لئے مرکز کام کررہا ہے۔

یوم آزادی کے روز وزیراعظم نریندر مودی نے کشمیر میںآگے برھانے کے متعلق بات کہی۔بائیکاٹ کا خراب اثر پڑیگا‘ مگر مرکز کو اس پر قائم رہتے ہوئے تمام چیزو ں کو واپس لانے کے لئے اپنی کاروائی کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔