جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام مسترد

اقوام متحدہ کی رپورٹ ہندوستانی فوج کو بدنام کرنے کی کوشش ، عالمی سطح پر پروپگنڈہ ، فوجی سربراہ جنرل بپن راوت کا بیان

نئی دہلی ۔ 27 جون ۔( سیاست ڈاٹ کام ) فوجی سربراہ جنرل بپن راوت نے آج کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ الزام سراسر غلط ہے ۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ ہندوستانی فوج کو بدنام کرنے کی کوشش ہے ۔ اس رپورٹ کا مقصد انسانی حقوق کے بارے میں عالمی سطح پر غلط پروپگنڈہ کرنا ہے ۔ اس سلسلے میں ہندوستانی فوج کا ریکارڈ شبہ سے بالاتر ہے ۔ سائبر سکیورٹی پر منعقدہ ایک کانفرنس کے موقع پر اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے جنرل راوت نے کہاکہ ہندوستانی فوج کے ریکارڈ پر مجھے اظہارخیال کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کے متعلق ہندوستانی فوج کا ریکارڈ شاندار رہا ہے ۔ اس بارے میں میں مزید کچھ نہیں کہہ سکتا ۔ کشمیر کی عوام بھی اس سے واقف ہیں اور ساتھ ہی ساتھ عالمی برادری بھی جانتی ہے کہ وادی کشمیر میں انسانی حقوق کا مسئلہ کس طرح ہے ۔ لہذا میں اس سلسلے میں یہ واضح کرتا ہوں کہ ہندوستانی فوج کی شبیہ شک و شبہ سے بالاتر ہے ۔ اس ماہ کے اوائل میں جاری کردہ اقوام متحدہ انسانی حقوق کونسل کی رپورٹ کے بارے میں اندرون ملک زبردست بحث چھڑ چکی ہے ۔ اس رپورٹ میں کشمیر اور پاکستان مقبوضہ کشمیر دونوں مقامات پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے الزامات عائد کئے گئے ہیںاور عالمی سطح پر تحقیقات کے لئے زور دیاگیا ہے ۔ جنرل راوت نے مزید کہا کہ ہمیں اس رپورٹ کے بارے میں ضرورت سے زیادہ تشویش پیدا نہیں کرنی چاہئے ۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ رپورٹ ہماری شبیہ کو بگاڑ دے گی ۔ ہندوستان نے اس رپورٹ کو پہلے ہی مسترد کردیا ہے ۔ یہ رپورٹ گمراہ کن اور مقصد براری پر مبنی ہے ۔ ہم اس طرح کی رپورٹ کو باہر لانے کے ارادے اور منشاء کاسوال اُٹھاتے ہیں ۔ وزارت خارجی اُمور نے بھی اس رپورٹ کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا ہے کہ مجموعی طورپر یہ رپورٹ ناقابل فہم ہے اور اس رپورٹ کے ذریعہ جھوٹ کا پروپگنڈہ کروایا جارہاہے ۔ اسی دوران جنرل راوت نے ملک کے اندر سائبر سکیورٹی کے بارے میں سوال کیا اور کہاکہ دفاعی طاقتوں کے لئے بھی سائبر سکیورٹی اور سائبر اسپیس کے فوائد پر غور کرنا چاہئے ۔ اس سسٹم کی خوبیوں کے ساتھ ساتھ اس کی خرابیوں کا بھی جائزہ لینا ضروری ہے ۔ ہمیں ایک ایسا سسٹم ڈیولپ کرنا ہوگا جس کی مدد سے ہم سائبر دنیا کی سکیورٹی کو یقینی بناسکیں۔ تقریباً تمام سسٹمس کو سکیورٹی فراہم کرنے کی ضرورت ہے چاہے وہ ہتھیاروں کا سسٹم ہو ، ایکوپمینٹ کا ہو یا گولہ بارود کا نظام ہو ۔ ان تمام کیلئے ایک محفوظ سکیورٹی سسٹم بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ مسلح افواج میں ان سسٹم کے استعمال کو محفوظ بنایا جاسکے اور اس نوعیت کی ٹکنالوجی حاصل کرتے ہوئے سائبر اسپیس کے فوائد سے استفادہ کیا جاسکے ۔ جنرل راوت نے مزید کہا کہ مخالفین کی جانب سے سائبر حملے ہونے کے امکان کو بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔ سائبر اسپیس نہ صرف روایتی جنگوں میں اہمیت رکھتا ہے بلکہ یہ برصغیر کے جنگوں اور خفیہ جنگوں کیلئے بھی کارآمد ہے ۔