جموں او رکشمیر۔ جو بھی ہندؤ او رمسلمانوں کو تقسیم کررہے ہیں وہ حقیقی ڈوگرا نہیں ہیں‘ محبوبہ مفتی

مفتی نے کہاکہ جو لو گ ’’ ترنگاہاتھوں میں تھامے معصوم لڑکی کے ساتھ گھناؤنہ جرم کرنے والوں کی حمایت کررہے ہیں‘‘ تاکہ ہندو اور مسلمانوں کو کے درمیان نفاق پیدا کیاجاسکے وہ ’’ حقیقی ڈوگرا نہیں ہیں‘‘۔
جموں ۔جموں سے تعلق رکھنے والے بی جے پی قائدین کی جانب سے اٹھ سالہ معصوم کے کتھوا میں عصمت ریزی اورقتل کے معاملے میں تحقیقات میں مداخلت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مفتی نے کہاکہ جو لو گ ’’ ترنگاہاتھوں میں تھامے معصوم لڑکی کے ساتھ گھناؤنہ جرم کرنے والوں کی حمایت کررہے ہیں‘‘ تاکہ ہندو اور مسلمانوں کو کے درمیان نفاق پیدا کیاجاسکے وہ ’’ حقیقی ڈوگرا نہیں ہیں‘‘۔

مفتی کا یہ تبصرہ ایسے وقت میں سامنے آیاجب چند دن قبل بی جے پی کے رکن اسمبلی اور مفتی کی کابینہ کے سابق وزیر چودھری لال سنگھ نے ’’ غیر سیاسی ‘‘ تنظیم جس کا نام ڈوگرا سوابھیمان سنگھٹن ہے کا قیام عمل میں لایا‘ جو سمجھا جارہا ہے کہ کتھوا عصمت ریزی اورقتل معاملہ میں وہ سی بی ائی مانگ کے مطالبہ پر عوامی حمایت حاصل کرنے کے مقصد سے اس کی تشکیل عمل میں لائی گئی ہے۔

ہیرانگر کے رسانہ گائوں میں 8سالہ خانہ بدوش بچی کے اجتماعی عصمت ریزی کے بعد ہوئے قتل کا ذکر کرتے ہوئے محبوبہ مفتی نے کہا کہ جو لوگ زانیوں کی حمایت کر رہے ہیں وہ ڈوگرے نہیں ہو سکتے ۔

انہوں نے کہا کہ کچھ لوگوں نے ایک معصوم بچی کے ساتھ ہوئی اس وحشیانہ حرکت پر سیاست کرنے کی کوشش کی ، انہوں نے حقیر نجی سیاسی مفاد کیلئے اس معاملہ کو فرقہ وارانہ رنگت دے کر ہندو بنام مسلمان بنانا چاہا، وہ کچھ بھی ہو سکتے ہیں لیکن ڈوگرے نہیں ہو سکتے کیوں کہ ڈوگرہ قوم زانیوں کی حمایتی ہر گز بھی نہیں ہو سکتی۔

انہوں نے یاد دلایا کہ ڈوگرہ مہاراجہ کے دور میں ایک دوسری ریاست کے راجکمار نے ہماری ریاست کی ایک بچی کو نازیبا الفاظ کہتے تھے تو ہمارے مہارانہ نے اس راجکمار کے جموں کشمیر آنے پر عمر بھر کے لئے پابندی لگا دی تھی۔

وہ اصل ڈوگرے تھے ، جو ایک بچی کے قاتلوں اور زانیوں کے حق میں قومی
پرچم اٹھا کر ریلیاں نکالیں وہ ڈوگرے نہیں ہو سکتے۔

سابق وزیر اعلیٰ اور پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ انہیںاور ان کے والدِ مرحوم مفتی محمد سعید کو بی جے پی کے ساتھ گٹھ جوڑ کرنے کے لئے بالخصوص وادی میں تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا کیوں کہ ہم نے کشمیریوں کے جذبات کے برعکس اس امید کے ساتھ ہاتھ ملایا تھا کہ مرکز کی مودی سرکار بھی سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی طرح دانشمندی کا مظاہرہ کرے گی

۔انہوں نے کہاکہ میرے والد نے جن مقاصدکے تحت بھاجپاکیساتھ ہاتھ ملایاتھا،اُن مقاصدکی تکمیل میں بھاجپااوراسکی مرکزی سرکارحائل رہی ۔پارٹی کے یوم تاسیس کے سلسلہ میں یہاں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرنا زہر کا پیالہ پینے کے مترادف تھا،

مجھے دو سال اور دو ماہ تک مسلسل اس کیلئے نکتہ چینی برداشت کرنا پڑی جب کہ میرے والد کو مرتے دم تک تنقید سہنا پڑی۔ انہوں نے کہا کہ 2002میں کشمیر کے لوگوںکو 1987کی انتخابی دھاندلیوں کی وجہ سے نئی دہلی پر اعتمادنہیں رہا تھا،

لیکن اٹل بہاری واجپائی نے شفاف انتخابات کروا کر لوگوں کا جمہوریت میں اعتماد بحال کروایا۔2002میں مفتی صاحب دہلی میں اٹل جی سے ملے تو موخر الذکر نے پرپوچھا تھا کہ کشمیری دہلی کے بارے میں کیا سوچتے ہیں تو مفتی نے بتایا تھا کہ کشمیری سمجھتے ہیں کہ دہلی ان کے بارے میں سب کچھ پیشگی طے کر لیتا ہے اس لئے وہ مرکز پر اعتماد نہیں کرتے۔

اٹل بہاری واجپائی کے دل پر اس بات نے اتنا اثر کیا کہ انہوں نے لال قلعہ کی فصیل سے اعلان کردیا کہ کشمیر میں شفاف انتخابات کو یقینی بنایا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ 2002الیکشن کے بعد ریاست میں پی ڈی پی کانگریس سرکار وجود میں آئی اور ریاست میں تعمیر و ترقی کا ایک نیادور شروع کیا، آج بھی ریاستی عوام اس عہد حکومت کو ریاست کی تاریخ کا سنہری دور سمجھتے ہیں۔

پی ڈی پی صدر نے یاد دلایا کہ اگر چہ اس وقت سرحدیں کشیدہ تھیں لیکن واجپائی پاکستان گئے اور مشرف یہ بیان جاری کرنے پر مجبور ہو گئے کہ پاکستان جموں کشمیر میں ملی ٹینسی کی حمایت نہیں کرتا۔

لیکن آج مرکزی سرکار کہتی ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ تب تک بات نہیں کرے گی جب تک وہ کشمیر میں عسکریت پسندوں کی حمایت بند نہیں کرتاجب کہ واجپائی نے اپنی سوجھ بوجھ سے لاہور سے یہ اعلان جاری کروادیا تھا کہ پاکستان کشمیر میں تخریب کاری کی حمایت نہیں کرتا۔

انہوں نے کہا کہ 2014میں بی جے پی کو جموں اور پی ڈی پی کو کشمیر میں عوامی فتویٰ حاصل ہوا ، میں نے والد صاحب کو بی جے پی کے ساتھ اتحاد نہ کرنے کا مشورہ دیا لیکن مرحوم کو امید تھی کہ نریندر مودی واجپائی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاکستان کے ساتھ مذاکراتی عمل شروع کریں گے

۔ اس وقت مفتی صاحب نے کہا تھا کہ وہ کانگریس یا کسی دوسری جماعت کے ساتھ حکومت بنا سکتے ہیں لیکن اس سے جموں کشمیر کے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور نہ ہی افہام و تفہیم کا سلسلہ پھر سے شروع ہو پائے گا۔

مفتی صاحب نے بی جے پی کے ساتھ مخلوط سرکار بنانے کا فیصلہ کر لیا لیکن یہ زہر کا پیالہ پینے جیسا تھا، اس فیصلہ سے مجموعی طور پر کشمیریوں کے جذبات مجروح ہوئے اور ہمیں ہر سطح پر نکتہ چینی کا سامنا کرنا پڑا۔

انہوں نے کہا میرے والد کی موت کے بعد جیسے ہی میں نے حکومت سنبھالی ، کشمیر میں حالات خراب ہو گئے ، میں حالات کو ٹھیک کرنے کے لئے بھی لڑی اور دہلی جا کر ایجنڈاآف الائنس برقرار رکھنے کیلئے بھی جدو جہد کرتی رہی۔

بی جے پی کی طرف سے انہیں جموں اور لداخ مخالف دینے کے الزامات کو خارج کرتے ہوئے محبوبہ مفتی نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے کسی بھی مقام پر جموں اور لداخ خطہ کے ساتھ کوئی امتیاز نہیں کیا، دونوں خطوں کے لوگوں کو ان کا حق دیا گیا، چاہے وہ پولیس میں کانسٹبلوں کی بھرتی تھی یا 61000کیجول لیبر کی مستقلی کا معاملہ تھا ۔

اپنے دور حکومت کی حصولیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے پی ڈی پی صدر نے کہا کہ اگر چہ کئی ترقیاتی منصوبے شروع کئے گئے لیکن یہ لوگوں کا اعتماد حاصل کرنے میں معائون ثابت نہ ہوئے۔

وادی میں ہونے والی ہر ہلاکت سے ہماری تمام تر کائوشوں پر پانی پھرجاتا رہا، اور یہی بات میں نے وزیر اعظم نریندر مودی کو ان کے دورۂ کشمیر کے دوران بتائی تھی۔ انہوں نے کہا کہ میں نے بار بار مرکز کو پاکستان کے ساتھ افہام و تفہیم کا سلسلہ شروع کرنے کی اپیل کی لیکن ان کی طرف سے مذاکرات کے لئے شرطیں عائد کی جاتی رہیں۔

دفعہ 370کی تنسیخ کا مطالبہ کرنے والوں کو محبوبہ مفتی نے واضح طور پر متنبہ کیا کہ وہ اس حساس معاملہ پر شور شرابا کرنا بند کردیں کیوں کہ یہ دفعہ ریاست کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کی ضامن ہے۔

انہوں نے کہا کہ جس دن بھی اس دفعہ کو تحلیل کیا جائے گا جموں کشمیر کا ہندوستان کے ساتھ الحاق خود بخود ختم ہو جائے گا کیوں کہ یہی دفعہ الحاق کی بنیاد ہے ۔

گوجر طبقہ کو جنگلات اراضی سے بیدخل نہ کرنے کیلئے دئیے گئے احکامات سے پیدا شدہ تنازعہ کا ذکر کرتے ہوئے محبوبہ مفتی نے کہا کہ ’جموں میں ہر کوئی گوجر ، گوجر چلا رہا ہے ، میں واضح کردوں کہ میں فاریسٹ ایکٹ کی طرز پر جموں کشمیر میں بھی قانون سازی کی حامی تھی،

کابینہ اجلاس میں اس پر تبادلہ خیال کیا جانا تھا لیکن بی جے پی نے اس پر بات کرنے سے ہی انکار کر دیا ۔

اس میں نے قبائلی امور وزارت کی ایک میٹنگ طلب کی اور حکم دیا کہ جب تک ایکٹ منظور نہیں ہوتا گوجروں کو جنگلوں سے بیدخل نہ کیا جائے ۔اس کے لئے مجھ پر بہت دبائو ڈالا گیا لیکن میں نے جھکنے سے انکار کر دیا تھا‘۔