جموں او رکشمیر۔ انکاونٹرس سے دہشت گردوں کی بھرتی کو مدد ‘ سرکاری رپورٹ ۔

ریاستی حکومت کی رپورٹ کے مطابق کسی ایک علاقے میں ایک سنگل انکاونٹر علاقے کے لااینڈ ارڈر حالات کو خراب کردیتا ہے‘ اور انکاونٹر کے مقام پر کئی ایک مرتبہ حملہ کے بعد اور احتجاجیوں کی موت کے بعد ہی اس کا خاتمہ ہوتا ہے۔
جموں او رکشمیر ۔وادی میں حزب المجاہدین کمانڈر برہان وانی کی موت کے بعد دہشت گردوں گروپ میں کئے گئے تقررات سامنے ائے کو متوفی دہشت گرد کے گھر سے دس کیلومیٹر کے فاصلے پر ہے جہاں یاتودہشت گردوں کاماردیاگیا تھا یا انکاونٹر کردیا گیاتھا اور یہ تقررات انکاونٹرس کے اندرون چالیس یوم وقوع پذیر ہوئے ہیں۔

مذکورہ جانکاری جموں او رکشمیر میں سکیورٹی ایجنسیوں نے کی ہے جو رمضان میں جنگ بندی کے طور پر دہشت گردی اور تقررات پر تیارکردہ رپورٹ کا حصہ ہے۔برہان وانی کے جولائی8سال2016میں موت کے بعد 121دہشت گردوں کو ماراگیا ہے اور216مقامی نوجوانوں نے دہشت گرد ی میں شامل ہوئے۔

نومبر5سال2016سے لے کر ا س سال اپریل26تک 43انکاونٹرس پیش ائے ہیں‘ جس میں 77دہشت گردمارے گئے اسی دوران 104کا تقرر عمل میں آیا اور یہ تقررات کا راست تعلق متوفی دہشت گردوں کے علاقے سے ہے یاپھر اس علاقے متوفی دہشت گردکاکوئی تعلق ضرور تھا۔ مذکورہ 104تقررات کے ارد گرد حالات پر مشتمل رپورٹ کے اہم نکات پر غور کریں تو یہ بات سامنے ائے گی کہ۔

ہر ایک انکاونٹر بھرتی کے حالات پیدا کرتے ہیں اور دہشت گردی کے تئیں ایک نیا اشارہ ملتا ہے کہ جن کاروائیوں میں زیادہ دہشت گرد ہلاک ہوئے ہیں ‘اس سے بغاوت کے کھیل کو فروغ دینے میں مدد ملتی ہے۔

دہشت گرد کہیں بھی مارا جائے مگر جذبات پوری وادی میں پھیلائے جاتے ہیں مگر زیادہ تر واقعات میں جس علاقے سے دہشت گردوں کا تقرر عمل میں لایاگیا ہے اور اس علاقے میں کتنے دہشت گرد مارے گئے اس میں مضبوط ربط سامنے آیا ہے۔

پھر تعجب یہ ہے کہ104میں67دہشت گردوں کا تقرر ایک مارے گئے دہشت گرد کے گھر سے پندرہ کیلومیٹر کے فاصلے پر ہوا ہے جبکہ دیگر48دس کیلومیٹرکے علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔

تقررات میں شامل 41فیصد انکاونٹر کے موقع سے دس کیلومیٹر کے فاصلے پر واقع مقام سے تعلق رکھتے ہیں‘ جبکہ 27فیصد کا تعلق گیارہ سے بیس کیلومیٹر کے فاصلے کا ہے اور اٹھارہ فیصد کاتعلق دس سے پندرہ کیلومیٹر

عسکریتوں کی بھرتی اور ان کی رہائش کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔مارے جانے والے عسکریت پسندوں کے گھر سے دس کیلومیٹر کے فاصلے پر رہنے والے 47فیصد دہشت گرد تنظیموں میں شامل ہوئے ہیں جبکہ 35فیصد کا تعلق گیارہ سے بیس کیلو میٹر کے فاصلے پر ہے جہاں مارے گئے عسکریت پسندو ں کا گھر واقع ہے

راجورہ( پلواماں) میں ایک انکاونٹر کے دوران جہاں کیلر کے جہانگیر خانداے مارا گیاتھا‘ موقع پر ہی اس کے دوست نے دہشت گرد تنظیم میں شمولیت اختیار کرلی۔

ؑ سال2010سے 2018کے درمیان میں 354گاؤں سے لوگ مختلف دہشت گرد تنظیموں میں شامل ہوئے ہیں جس میں نو گاؤں بھرتا کلاں سوپور کے ہیں اور ساتھ گاؤں متواتر حیف زینپور‘ ریڈوانی بالا اور ارجوانی بیجباہرار کے ہیں۔

سال2016کے ابتدا سے 34مقامی دہشت گرد وادی میں سرگرم ہیں جس میں2017تک 113کا اضافہ ہوے اور 2018کی ابتداء تک یہ تعداد 149سرگرم دہشت گردوں تک پہنچ گئی۔

سال2016میں33دہشت گرد مارے گئے تو 88نوجوان بھرتی ہوئی اور2017میں80دہشت گرد مارے گئے تو131دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث ہوئی
سال2010کے 461جو مقامی نوجوان دہشت گرد تنظیموں سے وابستہ ہوئے ان میں سے 331کا تعلق جنوبی کشمیر سے تھا

انسپکٹر جنرل آف جموں اینڈ کشمیر پولیس جموں زون ایس پی پانی نے انڈین ایکسپریس سے کہاکہ مقامی نوجوانوں کا دہشت گرد تنظیمو ں سے وابستہ ہونا ’’ ایک بڑا چیالنج‘‘ بن گیا ہے۔

انہو ں نے کہاکہ ’’ ہم مقامی سطح پر بھرتی کو رونی کی کوشش کررہے ہیں۔ اب تک گیارہ نوجوان جنھوں نے دہشت گرد تنظیمو ں سے وابستگی اختیار کی تھی انہیں واپس لانے کاکام کیاہے۔ انکاونٹرس کے دوران پانچ نئے بھرتی ہوئے نوجوان کو زندہ پکڑنے کاکام کیاگیا ہے۔

یہ ضروری ہے مقامی سطح پر ہونے والی بھرتی پر روک لگایاجاسکے‘‘۔سال2016کے بعد مقامی نوجوانوں کی وابستگی میں شمولیت پر رپورٹ ماناجارہا ہے کہ ’’ مقامی حالات‘‘ ہوسکتے ہیں ۔ جومقامی دہشت گردوں کی موت سے مقامی نوجوانوں کا رابطہ مانا جارہا ہے۔

رپورٹس کے مطابق انکاونٹرس میں مقامی دہشت گردی کی موت ’’ ایک دائرے کی کا حصہ ہے ‘‘ او ریہ ’’ مزید بھرتیوں کی طرف انہیں لانے میں مددگارثابت ہورہا ہے‘‘۔ انکاونٹرس میں ہلاکتوں کے بعد موقع پر پہنچ پر احتجاج کرنے والے عام شہریوں کی موت برہمی میں اضافہ کی وجہہ بن رہی ہے۔

رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ ’’ ریاستی حکومت کی رپورٹ کے مطابق کسی ایک علاقے میں ایک سنگل انکاونٹر علاقے کے لااینڈ ارڈر حالات کو خراب کردیتا ہے‘ اور انکاونٹر کے مقام پر کئی ایک مرتبہ حملہ کے بعد اور احتجاجیوں کی موت کے بعد ہی اس کا خاتمہ ہوتا ہے۔

جو احتجاجیو ں کی اموات پر مشتمل ہے‘‘۔مذکورہ احتجاجی عام طور پر قریب کے علاقوں سے ہوتے ہیں اور بعض اوقات انکاونٹر کے مقام سے ہی ان کا تعلق ہوتا ہے۔ مذکورہ احتجاجیو ں کی اموات سے ان کے جلوس جنازہ کے دوران بڑے پیمانے پر احتجاج کے حالات پیدا ہوتے ہیں۔

اس قسم کے حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دہشت گرد تنظیمیں برہم نوجوانوں کو ورغلانے میں بڑے حد تک کامیاب بھی ہورہی ہیں۔سکیورٹی اداروں نے بھی اس بات کی طرف اشارہ کیاہے کہ متوفی دہشت گردوں کی جلوس جنازہ کے دوران عسکری تنظیموں میں شمولیت کی حلف لیاجاتا ہے۔

رپورٹ کہتی ہے کہ’’کئی مرتبہ یہ بات مشاہدے میں ائی ہے کہ مرنے والے دہشت گردوں کے دوست ان کی نعشیں دیکھنے کے بعد عسکری تنظیموں میں شمولیت اختیار کرنے کا عہد لیتے ہیں۔

رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ پلواماں کے راجورہ میں جہاں جہانگیر خانداے کا انکاونٹر ہوا تھا‘ انکاونٹر کے مقام پر ہی اس کے دوست میں عسکری تنظیم میں شمولیت اختیار کرنے کا اعلان کیاتھا‘‘۔

دہشت گردوں کی تدفین کے بڑے اجتماعات میں سرگرم دہشت گردکو دیکھا گیا ہے جو اپنے متوفی ساتھی دہشت گردوں کو بندوق کے سلامی پیش کررہے تھے۔

سرگرم دہشت گردوں کی ایسے مواقعوں پر موجودگی بعض اوقات عام شہریوں سے ان کے روابط کو آسان بناتی ہے ۔ اس قسم کا تعلق انہیں عام شہریوں کی بھرتی میں مددگار ثابت ہورہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق انکاونٹرس کے بعد تیزی کے ساتھ ہونے والی بھرتی ۔

’’ وہیں بھرتی کے بعد بھی ردعمل میں تاخیر کی ایک وجہہ سرگرم دہشت گردوں سے نئی بھرتی ہونے والو ں کے درمیان میں رابطہ کی کمی او رہتھیاروں کی عدم دستیابی بھی ہوسکتی ہے۔

رپورٹ میں اس بات کی طرف بھی اشارہ کیاگیا ہے کہ جب ان کا اپریشن کامیاب ہوجائیں تو وہ کسی بھی قیمت میں پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں۔ریاست کی رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ’’ ہر ماہ ہونے والے دہشت گردوں کی موت اور اس کے بعد بھرتی ہونے والی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہر سال دہشت گردوں کی مجموعی تعداد میں اضافہ کی شکل اختیار کرچکی ہے۔

یہا ں تک کہ 2016میں کاونٹر سرجنسی اپریشن میں94مقامی دہشت گردوں کا مار گرانے کے بعد 113کی بھرتی ہوئی اور 2018کی ابتداء کے اعداد وشمار کے مطابق یہ تعداد اب 149تک پہنچ گئی ہے‘‘۔ خبر ہے کہ سال2018میں جہاں 26دہشت گردوں کو ختم کیاگیا وہیں 46نئے دہشت گردوں کی بھرتی ہوئی ہے۔

چار جنوری میں مارے گئے جس کے مقابل15کی بھرتی ہوئی۔ فبروری میں ایک بھی نہیں مارا گیا مگر پانچ نے دہشت گرد تنظیموں میں شمولیت اختیار کی مارچ میں سات مارگئے اور دس نئے دہشت گردوں کی بھرتی ہوئی ۔ اپریل میں 18مارے گئے تو 16نئے کی بھرتی ہوئی۔

رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ ’’ قابل غور بات یہ ہے کہ جنوری 2016سے لے کر2016جولائی تک اوسطً چار دہشت گردوں کو مار ا گیاتو چھ کی بھرتی ہوئی ہے مگر برہان وانی کے قتل کے بعد جولائی 2016کے بعد35نوجوانو ں نے دہشت گردی کا رخ اختیار کیا جس کے بعد او رتین نے اگست ‘ ستمبر اور ڈسمبر میں دہشت گردی تنظیمو ں میں شمولیت اختیار کرلی ہے‘‘۔

وانی کے موت کے بعد سیکورٹی ایجنسیوں کے جانکاری میں یہ بات ائی ہے کہ 35نوجوان اس کی موت سے متاثر ہوکر اگلے تین ماہ میں دہشت گرد بنے ہیں ۔

سوائے ان تین نوجوانوں کے ( جس میں سے دو کا تعلق باندی پور او رایک کا ہنڈوار سے ہے) او ریہ تمام کا تعلق جنوبی کشمیر سے ہے۔کشمیر میں2010اور2018کے درمیان مقامی دہشت گردی سے متعلق تفصیلات کا اگر جائزہ لیاگی تو یہ بات سامنے ائے گی کہ 29حصوں میں دہشت گردموجود ہیں۔