بیجنگ۔چین کے صوبہ سنکیانگ میں حالیہ دنوں میں منظر عام پر آنے والے ’ ری ایجوکیشن سنٹرز‘ میں دس لاکھ سے زائد ایغور مسلمانوں کو یہ کہہ کر رکھاگیاہے کہ انہیں تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے۔ چینی حکام کس بنا پر فیصلہ کرتے ہیں کس کو ان کیمپوں میں لائے جائے؟ ہم نے یہ سوال ایسے پاکستانی شہریوں کے سامنے رکھا جن کی بیویاں ان کیمپوں میں بند ہیں۔
انہوں بے جو کہانیاں سنائیں ان سے وہ وجوہات ظاہر ہوتی ہیں جن کی بنیاد پر لوگوں کو پکڑا جاتا ہے۔میں نے گل بانو نامی ایک خاتون کے ساتھ مل کر چین میں کنسلٹنٹ کاکاروبار شروع کیا۔ اس کا تعلق صوبہ سنکیانگ کے مسلمان خاندان سے ہے۔ ہم پاکستانی تاجروں کو ویزا سے لے کر مارکٹ ‘ سپلائیر ‘ خریداری اور ترسیل کی خدمات فراہم کی جاتی تھیں۔ یہ کاروبار کافی کامیاب ثابت ہوا ۔
سال2016کے آخر میں ایک گاہک نے ایک بڑا ارڈر دیا۔ میں نے جب اس بارے میں گل بانو سے بات کی تو اس نے مجھے بتایاکہ وہ صوبہ سناینگ میں اپنے آبائی علاقے میں ہے۔ میں نے ا س سے پہلے چین کے تما سفر اوئی سفرکیے تھے۔ یہ سن کر میں نے اس سے کہاکہ میں سڑک کے راستے آتا ہوں س طرح وہ علاقے بھی دیکھ لیں گے او ردونوں مل کر اس پراجکٹ کی بھی تیاری کرلیں گے ۔
مجھے یاد ہے کہ اس نے مجھے روکنا چاہا مگر میں نہیں رکا اور پھر ایک روز میں سڑک کے ذریعہ سے سفر کرتے ہوئے اس علاقے تک پہنچ گیا جہاں پر اس نے میرے قیام کے لئے ایک ہوٹل کا انتظام کررکھا تھا۔
مجھے اس علاقے میں پہنچ کر بہت خوشگوار حیرت ہوئی کہ یہاں کہ اکثریت مسلمان ہے اورکچھ مساجد بھی نظر ائیں۔ میں ایک رات وہاں توقف کیاتو گل بانو نے کہاکہ وہ نہیں چاہتی کہ میںیہاں پر زیادہ دن رکوں اور اس لئے وہ چاہتی تھی کہ میں اسی روز وہاں سے چلا جاؤں اور بعد میں وہ جلد پہنچ جائے گی۔
میں نے اس کی ایک نہ سنے کہاکہ دوتین دن میں علاقہ دیکھنا چاہتاہوں ۔
وہ میری ضد کے آگے بے بس ہوگئی ۔ اس نے مجھے منع کیاتھا میں مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے نا جاؤں۔ میں نے پھر ایک مرتبہ اسکی ہدایت پر عمل نہیں کیا او رجمعہ کی نماز مسجدمیں پڑھی ‘ علاقہ دیکھا اور پھر واپس بیجنگ چلا گیا۔ گل بانو بھی تین دن بعد بیجنگ پہنچ گئی ۔ وہ کچھ پریشان تھیں ۔
میں نے وجہہ پوچھی تو کہنے لگی کہ سکیورٹی حکام نے اس سے میرے تعلق پوچھ گچھ کی ہے۔ میں اس سے پہلے صوبہ سنکیانگ کے حالات کے بارہ میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ اس نے مجھے تفصیل سے بتایاتو میں بھی پریشان ہوگیااورمجھے افسوس ہوا ۔ تاہم اس نے مجھے تسلی دی کہ کچھ نہیں ہوگا۔
ہم دونوں نے اپنا پراجکٹ پورا کیا۔ گاہک مکمل طور پر مطمئن ہوا او رایک بڑی رقم ہمارے حصہ میں اگئی۔میں گل بانو کے ساتھ اچھا وقت گذار کر پاکستان چلا آیا۔ سال 2016کے آخر میں پاکستان آیا ہوا تھا کہ یہاں سے گل بانو سے کرنے کی کوش کی تو اس سے رابطہ نہیں ہوسکا۔
جب کافی دن تک اس سے رابطہ نہیں ہوا تو میں نے مشترکہ جانے والوں سے رابطے کیے۔حیرت انگیز طور پر کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ گل بانو کہاں ہے۔
یہ بہت پریشانی کی بات تھی۔ میرے دہری پریشانی تھی کہ اس کے بغیرمیرا کاروبار چلنا ممکن نہیں تھا او روہ میری گرل فرینڈ بھی تھی۔اس کے بعد جب میں نے چین جانے کی کوشش کی تو مجھے بیجنگ ائیر پورٹ پر بتایاکہ میں چین میں داخل نہیں ہوسکتا۔
میں نے ایمگریشن حکام کو بتایامیں چین میں پڑھتا رہاہوں ‘ میرے پاس ویزا ہے اور میں کئی مرتبہ آچکا ہوں مگر انہو ں نے میری ایک نا سنی اور مجھے کہاکہ دستیاب پرواز سے پہلے مجھے ملک بدر کردیاجائے گاکیونکہ چین میں داخلہ کی اجازت نہیں ہے۔
ایسے بہت سے لوگوں سے میر ی بات ہوئی ۔ ان کو جب میں نے اپنے ساتھ گزرنیوالے حالات بتائے تو ان کا کہناتھا کہ میرے جمعہ کی نماز مسجد میں پڑھنے کے سبب گل بانو پر عتاب ائی ہے۔
وہ کب اے گی اوررہا ہوکر میرے ساتھ رابطہ کرے گی یا نہیں مجھے کچھ پتہ نہیں‘ مگر میں اس کو اکثر بہت شدیت سے یاد کرتاہوں
۔ محمد جمیل نے کہاکہ میرا تعلق صوبہ سندھ کے خانہ بدوش قبلے سے ہے ۔ ہماراکاروبار سانپ ‘ بچھو‘ کچھو وغیرہ پکڑنے کاکام جوپاکستان میں غیرقانونی ہے مگر ہمارے لئے کبھی زیادہ مسائل پیدا نہیں ہوئی ۔
میں نے یہی جانور ان کے اعضاء چین سپلائی کرنے کاکام شروع کردیا او رچین آنے جانے لگا۔ ایک دوست نے چینی لڑکی کے ساتھ شادی کے فوائد بتائے تو میں نے فوراً تیارہ وگیااور 2016میں میری شادی ایک غیرمسلم چینی خاتون سے ہوگئی ۔
میں نے اسے بیجنگ میں گھر بھی دلایا۔ میری بیوی میرے کاروبار کے لئے بھی بہت اچھی شراکت کا رثابت ہوئی اور میرے زیادہ وقت بیجنگ میں گذرتا تھا۔ سال2017میں میری بیوی نے پاکستان دیکھنے کی خواہش ظاہر کیاجس پر میں اس کو لے کر اسلام آباد پہنچ گیا۔