جشن ریختہ میں نگاہ ‘ سماعت اور لب سب اسیر اُردو ہوئے

اُردو کاجشن: انڈیا گیٹ پر واقع اسٹیڈیم میں شعروشاعری کادور چلا ‘ اُردو کی احتجاجی شاعری سن کر سامعین نے ‘ آزادی گفتار‘ کے حق میں تالیاں بجائیں‘ زبان بندی ‘ پربزم خیال‘ قاضی ‘ نے طنز کسا‘ شرکا نے سوز وسخن اور لذت دہن کا لطف اٹھایا
نئی دہلی۔انڈیا گیٹ کے پہلو میں واقعہ میجر دھیان چند اسٹیڈیم میں کل جاری اُردو کے سب سے بڑے اور خوبصورت جشن کے دوسرے دن نظرسماعت او رلب سب کے سب اسیر اُردو نظرائے۔شعر وشاعری کا دور چلا۔ اُردو کی احتجاجی شاعری کو موسیقی سے سنوار کر محفل خانہ میں جب پیش کیاگیاتوسامعین نے دمکتی نگاہوں اور تالیو ں کی گڑگڑاہٹ کے ساتھ آزادی گفتار کی حمایت کی۔بزم خیال میں بزرگ افسانہ نگار قاضی عبدالستار بھی زبان بندی پر طنز کسنے سے پیچھے نہیں رہے۔ریختہ کی چاروں جلسہ گاہوں ‘ محفل خانہ‘ بزم خیال ‘ دیاار اظہار اور کنج سخن میں اُردو رقص کناں نظیر ائی۔جشن میں شرکت کے لئے ائے ہر عمر کے لگوں نے اپنے اپنے ذوق کے مطابق جشن کا لطف اٹھایا۔ سوز سخن کے ساتھ لذت دہن کا بھی لطف اٹھایا

۔صبح دھوپ نکلتے ہی سب سے پہلے محفل خانہ میں مشہور موسیقی کار ‘ گلوکار ‘ نغمہ نگار ‘ مدن گوپال سنگھ صدائے فقیری لے کرحاضر ہوئے۔جس میں شاہ حسین روی‘ بلے شاہ اور سلطان بہو کی فقیری پر مشتمل مجموعہ کلام کے کچھ دلچسپ ٹکڑے سنائے گئے۔کہانیاں بھی سنائیں اور چھوٹے چھوٹے تجربے بھی بیان کئے ۔سامعین ہمہ تن وگوش گوپال سنگھ کے ساتھ فقیری کی دنیا میں جاتے نظر ائے وہیں بزم خیال میں اسلم مرزا حبیب نثار اور نسیم الدین اپنے ناظم رحمت یوسف زئی کے ساتھ اُردو کے دکنی خوبصورتی سے پردہ اٹھایا۔

انہوں نے دکن میں اُردو زبان کے فروغ وارتقاء کی تاریخ پر روشنی ڈالنے کے ساتھ ساتھ ان گوشوں کابھی تذکرہ کیا جس میں اُردواور دکن کے رشتے کا جمال خیرہ کن رہا ہے۔تھوڑی دیر بعد ہی ہندوستانی فلم انڈسٹری کے مشہور اداکارنواز الدین صدیقی بھی کالا کوٹ اور سیاہ مفلر پہنے اپنی خاص مسکراہٹ بکھیرتے جشن میں نظر ائے۔ساتھ ہی جشن ریختہ کے بانی سنجیوصراف بھی تھے‘ جو بار بار نواز الدین صدیقی کے بازو کو چھو رہے تھے او رشائدکچھ کہہ رہے تھے۔ محفل خانہ پہلے سے سجی ہوئی تھی او رنواز الدین کو دیکھتے ہی نوجوان چہرے دمکنے لگے اور جلسہ گاہ طوری طرح بھر گیا۔

نواز الدین صدیقی نے اُردو زبان سے اپنا رشتہ بیان کرتے ہوئے زبان میر کی خوبصورتی بیان کی ۔مشہور آرجے صائمہ نے نواز الدین صدیقی کو منٹو کے روبر (پروگرام کانام) کرایاتوسچ کا برتن کھنکنے لگا۔نواز نے بتایا کہ وہ منٹو پر ایک فلم کررہے ہیں اور ان کے کردار میں کچھ اس طرح منٹو بس گئے ہیں کہ سچ بولنے کا مرض لاحق ہوگیا ہے۔ انہوں نے حال ہی میں لکھی گئی ایک کتاب ( جس میں انہوں نے حسیناؤں کے ساتھ اپنے رشتوں کے متعلق بتایا ہے) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ میں نے ایک کتاب لکھی تھی۔ میں نے اس میں زیادہ سچ بول دیا۔ معافی بھی مانگنی پڑی۔ انہوں نے کہاکہ سچ بولنے میں ڈرہوتا ہے۔ کبھی کبھی لگتا ہے کہ اتنا زیادہ سچ مت بولو۔ تھوڑا سابول دو۔ سمجھوتہ‘ سااتنا چھپا لو اور اتنا بول دو۔

صدیقی نے بعدمیں کہاکہ سچ تو پورا بولنا چاہئے‘ نصف سچ کیسے سچ ہوگا۔ دوسرے جلسہ گاہ بزم خیالمیں گوپی چند نارنگ شافع قدوائی کے ساتھ محو گفتگو تھے‘ جہاں اور زبان میں ہندوستان کی مذہبی روایتوں پر عالمانہ بات چیت ہوئی۔گلزار دہلوی بھی اپنے عہد رفتہ میں کھو گئے اور ماضی کی کہانیاں اور ررواتیں سنائیں۔ظہرانہ کے بعد محفل خانہ میں جب سہیل ہاشمی ‘ مشہور غزل گلوکارہ شبہا گل کے ساتھ پہنچے اور اُردو کے باغیانہ شاعری کے دیوان سنانے شروع کئے تو جیسے سامعین کے دلوں میں شعلے بھڑک اٹھے۔ کوئی نعرے نہیں لگا آزادی کے نغمے نہیں پڑھے گئے صرف تالیوں کی گڑگڑاہٹ تھی او رمسکراہٹیں۔ جس میں تنقید ‘ تائید اور غصہ سب نظر آرہاتھا۔شبہا نے دشنت کمار کی غزل سے جب یہ شعر پڑھا۔ کہاں تو طئے تھا چراغاں ہر ایک گھر کے لئے۔کہاں شراغ میسر نہیں شہر کے لئے ۔ توسامعین نے شاعر کے مقصد تک رسائی کرن اور آج کے دور سے مربوطکرنے میں ذرا بھی دیر نہیں کی۔

سہیل ہاشمی نے پاکستان کے مشہور باغی شاعر حبیب جانب کو بھی یاد کرلیا۔شوبھا نے راگ لگاتے ہوئے دیپ جس کے محلات ہی جلے ‘ چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے اور جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے ‘ ایسے دستور کو صبح نے نور کو میں نہیں مانتا۔ میں نہیں مانتا ۔ کو گنگنا شروع کیا تو ایک عجیب ساسماں بندھ گیا۔ اس بارجشن میں ایک اضافہ دیکھاگیا۔جو اُردوکو راک میوزیک کے ساتھ جوڑ کر ایک خوبصورت فیوزن پیش کیاگیا جسے نو عمر بچوں اور دوشیزاؤں سمیت بڑی عمر کے لوگوں نے بھی شوق سے دیکھا اور سنا۔ ایک خاص لب ولہجہ میں کہانیاں سنانے والے نیلیش مشرا بھی ائے او راُردوسے عشق کی داستان سنائی۔ انہوں نے کہاکہ لب ولہجہ کی خوبصورتی اسی وقت آتی ہے جب آپ کو اُردوآتی ہے۔ دیر رات مشاعرہ کا اہتمام ہوا جس میں عالم رشید ‘ علینہ عترت’امیر امام‘حسیب سوز‘جاوید اختر‘راحت اندوری‘ سالم سلیم‘شمیم عباس‘ شارق کیفی وغیر ہ نے اپنا کلام سناکر مشاعرہ کی چمک دوبالا کردی‘ جبکہ شکیل جمالی نے نظامت کی۔

جشن میں امتیاز علی بھگوت گیتا تصور اور حقیقتکے عنوان پر ہندوستان کی قدیم تہذیب وثقافتی سلسلوں کا نقشہ کھینچا تو ہر بھنس مکھیانے عہد وسطی کے تہذیبی علامتوں اور روایتوں کا ذکر کیا۔اس کے علاوہ کنج سخن میں پروگرام ہوئے۔ مزاحیہ شاعری ہوئی۔ بچپن کی کہانی سنائی گئی۔ نوجوان شاعروں نے اپنے اپنے کلام سنائے۔ صبح سے دیر شام تک لوگوں کی آمد درفت کا سلسلہ جاری رہا۔ کتابوں کے بازار میں بھی لوگوں کی بھیڑ نظر ائی۔ واضح ہوکہجشن ریختہ( چوتھا ایڈیشن)کا آغاز ہوچکا جو کہ اتوار کے شب کو اختتام پذیر ہوا۔ یہ جشن گذشتہ کچھ سالوں سے موسم سرما کی شروعات میں منعقد کیاجاتا ہے جس میں بڑی تعداد اُردو کے شائقین کی شریک ہوتی ہے