دہلی کی حکومت نے جولائی31سال2015میں گواہوں کو تحفظ اسکیم کو منظوری دی تھی۔
فبروی 7سال2017کو منسٹر آف اسٹیٹ( ہوم) ہنس راج اہیر نے راجیہ سبھا میں کہاکہ اس وقت گواہوں کے تحفظ پر کوئی اتفاق نہیں ہوا تھا اور نظم ونسق ریاست کی ذمہ داری ہے۔
پچھلے ہفتے ممبئی ہائی کورڈ نے سی بی ائی سے پوچھا کہ سہراب الدین فرضی انکاونٹر سنوائی کے دوران گواہو ں کو کس طرح کا تحفظ فراہم کیاجارہا ہے اور کیا وہ فیصلے سے قبل گواہوں کو منحرف بنانا چاہتے ہیں۔ سی بی ائی کی ممبئی عدالت میں مذکورہ کیس سے وابستہ نومبر2017تک سنوائی کے دوران 49میں سے 33گواہوں نے اپنا بیان پلٹ دیا ہے۔ انڈین اویڈینس ایکٹ1872نے ایک ’’منحرف‘‘یا ’’منفی‘‘ یا پھر’’ غیرموافق‘‘ گواہ کی وضاحت نہیں کی ہے۔ اپنے ماضی کے بیان سے منحرف ہونے والے گواہ کو عام طور پر غیرمناسب گواہ قراردیا جاتا ہے۔سنوائی کے دوران گواہ اس لئے اہمیت کاحامل ہے کیونکہ انگلش کے فلاسفر جرمی بینتھام نے اس کو ’’ انصاف کی آنکھ او رکان قراردیا ہے‘‘۔
اسی طرح انیسویں صدی کے مصنف ایڈوارڈ کی بولویر لیٹون نے کہاکہ ’’ جہاں کوئی جرم انجام پاتا ہے وہاں پر گواہ ضرورہوتا ہے‘‘۔عام طور پر ہندوستا ن میں گواہ جن سے مارنے کی دھمکیوں‘ ہراسانی اورطویل مدت تک مقدمہ کی سنوائی کا سلسلہ جاری رہنے کے سبب برہم ہوجاتے ہیں۔جس کے سبب بہت حد تک ممکن ہے کہ وہ اپنے بیان سے منحرف بھی ہوجاتے ہیں۔
سال2016میں سپریم کورٹ نے کہاکہ ’’ عام صورت حال میں ہم نے مشاہدہ کیاہے کہ کریمنل کیس میں گواہ منحرف ہوجاتا ہے‘‘۔ پچھلے کچھ سالوں میں خاص طور غیرمعمولی اعداد وشمار کے ساتھ گواہ منحرف ہوئے ہیں جس میں ہائی پروفائل واقعات کو مبینہ طور پر دائیں بازو شدت پسندوں سے جڑے ہونے والے واقعات بھی شامل ہیں۔
سہراب الدین کیس میں نومبر2005کوحیدرآباد سے سانگلی سفر کررہے سہراب الدین ‘ کوثر بی اور اس کے ساتھ تلسی رام پرجاپتی کے ہمراہ بس میں سوار شرد کرشانجی اپٹے نے مجسٹریٹ کے سامنے اس بات کو قبول کیا کہ وہ بس میں سوار تھا مگر بعد میں وہ اپنے بیان سے منحر ف ہوگیا۔بس ڈرائیو مصباح حیدر اور کلینر غازی الدین چابکوسوار میں پہلے اس بات کو قبول کیاتھا کہ بیچ راستے پر ایک ایس یووی نے بس کو روکا اور تین لوگوں کو بس میں سے اتر کر لے گئی مگر بعد میں وہ بھی اپنے بیان سے منحرف ہوگئے۔
سہراب الدین کی حیدرآباد میں میزبانی کرنے والے نے بھی بعد میں اس بات سے انکار کردیا کہ اس نے سہراب الدین کی ضیافت کی ہے۔ بس مالک ایم جے ٹورس نے سی پی ائی کو ٹکٹس کی زیراکس کاپی حوالے کی پھر اس کے بعد زیراکس کاپی کی اجرائی سے ہی انکار کردیا۔ فبروری 14کے روز لفٹنٹ کرنل شری کانت پروہت جو کہ2007مکہ مسجد بم دھماکوں میں این ائی اے کا گواہ تھا نے ملزم سوامی آسیما آنند سے اس کی ملاقات کی بات سے انکار کردیا۔
اجمیر درگاہ اور سمجھوتا ایکسپرس دھماکوں کے کیس میں چالیس سے زائد گواہ منحر ف ہوگئے جس کے نتیجے میں آسیما آنند کو بری کردیاگیا۔ سال2002میں سلمان خان کی کار سے کوئی حادثے میں عینی شاہد نے پہلے تو اداکار کو ڈرائیور کے سیٹ پر بیٹھے ہوئے دیکھنے کی گواہی دی مگر سال2014میں سنوائی کے دوران وہ اپنے اس بیان سے منحرف ہوگیا۔ بسٹ بیکری کیس میں زہرہ شیخ نے تو پہلے کہاکہ مصلح ہجوم مخالف مسلم نعرے لگارہا تھا اور ’’ ساری رات موت کا ننگا ناچ چلتا رہا‘‘ مگر بعد ازاں وہ دیگر چار گواہوں کے ساتھ منحرف ہوگئی۔
عدالت کے ساتھ کھلواڑ کی وجہہ سے عدالت نے اس کو ایک سال کی سزاء سنائی اور اکیس ملزمین کے خلاف دوبارہ اس کیس کی ہائی کورٹ میں سنوائی کی گئی۔ مجرم سے سیاست داں بننے والے ڈان مختار انصاری کے قریبی ابھئے سنگھ کو 1998میں لکھنو جیل سپریڈنٹ آر کے تیواری کے قتل سے باعزت بری کردیاگیا کیوں نکہ تمام36گواہ اپنے بیان سے منحرف ہوگئے تھے۔ ایک او رہائی پروفائل جسیکالال قتل کیس اور بی ایم ڈبلیو1999ہٹ اینڈ رن کیس میں بھی یہ دیکھا گیا کہ کئی گواہ منحرف ہوگئے۔ گواہوں کے تحفظ پر ہندوستا میں کس طرح کے اقدامات اٹھائے جاتے ہیں۔
اس جائز ہ لینے کے لئے ہم یہاں پر کچھ مثالیں پیش کررہے ہیں۔ گواہوں کی حفاظت کے لئے مختلف تجاویز لاء کمیشن کی چودہویں رپورٹ(1958)‘ اور نیشنل پولیس کمیشن 1980میں چوتھی‘ اور لاء کمیشن 1996میں154ویں رپورٹ پیش کی گئی۔ لاء کمیشن 2001کی178ویں روپوٹ کی تجویز کی بنیاد پر کریمنل لاء( ترمیم شدہ) بل2003بنایاگیا۔امریکہ میں گواہوں کو آرگنائزٹ کرائم کنٹرول ایکٹ کے تحت تحفظ فراہم کیاجاتا ہے۔
سال2013تک 8500گواہ اور 10,000ان کے گھر کے افراد کو اس اسکیم کے تحت تحفظ فراہم کیاگیاہے۔سال2014-15میں کینڈا کی حکومت نے 23لوگوں کی حفاظت کے لئے 9.6ملین ڈالرس کی منظوری دی تھی ۔ آسٹریلیا او رانگلینڈ میں بھی گواہوں کے تحفظ کاپروگرام شامل ہے۔