برلن۔ 5 جولائی (سیاست ڈاٹ کام) امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ 7 جولائی سے شروع ہونے والے G-20 کانفرنس میں شرکت کرتے ہوئے دیگر عالمی قائدین سے ملاقات کا سلسلہ شروع کریں گے۔ جرمنی میں اس اہم ترین کانفرنس کیلئے سکیورٹی کے عدیم المثال انتظامات کئے گئے ہیں تاہم بعض سیاسی گوشوں سے یہ کہا جارہا ہے کہ اس کانفرنس پر حالیہ دنوں میں شمالی کوریا کے ذریعہ کئے گئے نیوکلیئر بالسٹک میزائل ٹسٹنگ کے بادل بھی چھائے رہیں گے لہٰذا یہ سمجھا جارہا ہے کہ کانفرنس میں شمالی کوریا سے لاحق خطرات اور موسمی تغیر بحث کا اہم موضوع ہوگا جبکہ تجارت پر کی جانے والی گفتگو کو پس پشت ڈالا جاسکتا ہے کیونکہ پڑوسی ممالک چین، جاپان اور جنوبی کوریا کے سربراہان بھی ڈونالڈ ٹرمپ اور روس کے مردِ آہن ولادیمیر پوٹن کے ساتھ یہاں جمع ہوئے ہیں۔ اسی دوران امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے ایک اہم بیان دیتے ہوئے اس بات کی توثیق کی کہ شمالی کوریا نے اب ایک ایسی ہتھیار سازی کرلی ہے جو امریکی سرحدوں تک رسائی حاصل کرسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیوکلیئر بالسٹک میزائل کی ٹسٹنگ کے اس بات کی علامت ہے کہ شمالی کوریا صرف امریکہ ہی نہیں بلکہ اس کے حلیف اور شراکت دار ممالک کے لئے بھی نئے خطرہ کے طور پر ابھر رہا ہے۔ روس اور چین نے کل نیوکلیئر بالسٹک میزائل ٹسٹ کرنے پر شمالی کوریا کی مذمت کی تھی اور یوروپی یونین تو شمالی کوریا پر مزید تحدیدات عائد کرنے پر غور کررہی ہے۔ اس وقت اس اہم اجلاس میں سب کی نظریں ٹرمپ پر ہوں گی، جنہوں نے ببانگ دہل یہ دعویٰ کیا ہے کہ شمالی کوریا کا آئی سی بی ایم کا خواب کبھی بھی شرمندۂ تعبیر ہونے نہیں دیں گے۔
یہی نہیں بلکہ انہوں نے چین سے بھی خواہش کی ہے کہ وہ اپنے پڑوسی شمالی کوریا کی لگام کسے۔ G-20 کانفرنس میں سب سے زیادہ چکاچوند کردینا والا لمحہ وہ ہوگا جب ٹرمپ اور پوٹن کی ملاقات ہوگی۔ یاد رہے کہ پوٹن جو ایک سابق کے جی بی ایجنٹ رہ چکے ہیں، پر یہ الزامات بھی عائد کئے گئے ہیں کہ انہوں نے ہیکرس اور فرضی خبریں بنانے والوں سے سازباز کرتے ہوئے امریکی صدارتی انتخابات میں دخل اندازی کرتے ہوئے کچھ اس انداز میں اپنی شاطرانہ چال چلی کہ ’’سیاست سے نابلد‘‘ ڈونالڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤز پہنچ گئے اور ہلاری کلنٹن حیرت زدہ رہ گئیں۔ کانفرنس کا انعقاد ایک ایسے وقت ہورہا ہے جب مغرب اور یوروپ منقسم ہیں۔ یہ اندیشے بھی ظاہر کئے جارہے ہیں کہ G-20 کانفرنس موسمی تغیر پر چین اور امریکہ کو علیحدہ کردے گی۔ یہ کانفرنس ایسے 20 ممالک پر مشتمل ہوگی جو صنعتی طور پر مستحکم اور ابھرتی معیشتیں کہلاتے ہیں اور اس ایونٹ کو اقوام متحدہ کے دائرہ کار سے باہر منعقدہ ہونے والی سب سے بڑی کانفرنس تصور کیا جاتا ہے جبکہ دیگر عالمی قائدین کے لئے بھی ملاقات کا سب سے بڑا موقع فراہم ہوگا جہاں صدر چین ژی جن پنگ اپنے علاقائی حریف جاپانی وزیراعظم شنزوابے سے ملاقات کریں گے۔ دوسری طرف شام، یوکرین، سعودی عرب، ایران اور قطر کے ساتھ بعض عرب ممالک کے سفارتی تعلقات منقطع ہوجانے کے واقعات پر بھی G-20 کانفرنس میں مختصر ہی سہی لیکن مباحثہ ہوسکتا ہے۔