جب وہ قتل کرنے کے بعد جلانے کاکام کررہا تھا اس وقت قاتل کا کم عمر بھانجہ اس سارے واقعہ کی منظر کشی میں مصروف تھا۔ پولیس

 

ملز م کے گھر والو ں کا دعوی ہے کہ وہ منشیات کا عادی ہے‘ راجستھان پولیس کا ماننے سے انکار
راجستھان۔ریاست کے ضلع راجسمند میں 36سالہ شمبھولال ریگر نے ایک غیرمقامی لیبر محمد افرازل کو جلادیاتھا اور اس واقعہ کا ویڈیو اس کی 14سالہ بھانجی سیتا نے منظر کشی کی تھی اس کے ایک روز بعد شمبھول کی بیوی سیتا ریگرگھر میں بیٹھ کر رورہی ہے اور منظر کشی کرنے والے بھانجی خاموش کھڑی ہے۔ سیتا نے کہاکہ ’’ مجھے نہیں معلوم میرے شوہر نے یہ کام کیو ں کیا ‘ اس کے پاس نوکری نہیں ہے۔ ہر وقت وہ گانجہ پیکر سڑکوں پر گھومتا رہتا ہے۔ میں نے کبھی نہیں سونچا کہ وہ قتل بھی کرسکتا ہے‘‘۔متوفی افرازل جس کی عمر48سال کی تھی او روہ مغربی بنگال کے مالدہ کا رہنے والا تھا ۔

ایک ویڈیو میں دیکھایا گیا ہے کہ ریگر نعش کو جلانے سے قبل افرزال پر کھلاڑی نما ہتھیار سے حملہ کررہا ہے۔ اس کے دوسرے ویڈیو میں ’’لوجہاد‘‘ اور اسلام کے خلاف فرقہ وارانہ نعرے لگاتے ہوئے دیکھائی دے رہا ہے۔قتل کے بعد اپنی بھانجی او ر12سال کی بیٹی کے ساتھ مفرور تھا کیلوا میں اس کے قریبی رشتہ دار کے گھر سے جمعرات کی صبح گرفتار کرلیاگیا۔انسپکٹر جنرل آف پولیس ادئے پور رینج مسٹر آنند شریواستو نے اس کی بھانجی کو بھی تحویل میں لے لیاگیا ہے۔ ستیا کا دعوی ہے کہ ریگر تین بچوں کو باپ ہے‘ جس کا دماغی توازن خراب ہے۔ چہارشنبہ کی صبح گھر سے جانے کے بعد اس کو سنانہیں گیا ہے۔ ابتدائی تحقیقات کے بعد ائی جی سرایواستو کا کہنا ہے کہ ’’ ریگر کے دماغی توازن خراب ہونے کا کوئی بھی ثبوت انہیں نہیں ملا ہے‘‘۔

انہوں نے سیتا ریگر کے بیان کو بھی جھوٹ کا پلندہ قراردیا ہے۔انہوں نے کہاکہ’’ ایک سال قبل ریگر کا مربل کا شاندار کاروبار تھا‘‘ ۔ ہم نے اس کی نابالغ بھانجی کو بھی اپنی تحویل میں لے لیاہے کیونکہ اس نے قتل کے بشمول تمام واقعہ کا ویڈیو لیاتھا‘‘۔ وہیں پر پولیس منشاء کی بھی جانکاری حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے جس کے متعلق ریگر کے گھر والوں کا دعوی ہے کہ کچھ سال قبل مغربی بنگال کے ایک مسلم شخص سے ایک ہندو لڑکی کے معاشقہ چل رہاتھا۔ ریگر کی بہن نے مبینہ طور پر بتایا ہے کہ ’’ وہ شخص افزارل کا ساتھی تھا۔ اس لڑکی کی ماں نے میرے بھائی کو اپنی بیٹی واپس لانے کے لئے کہاتھا‘ اور اس نے یہ کیا۔ اس کے بعد سے میرے بھائی کو مسلسل دھمکیاں مل رہی تھیں‘‘۔

گرفتاری کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے ریگر نے دعوی کیاہے کہ اس نے یہ قتل اس لئے کیا ہے کیونکہ اسکو ’’ دھمکیاں‘‘ دی جارہی تھیں۔اس نے مبینہ طور پر کہاکہ ’’ وہ ہماری کالونی سے ایک لڑکی کو لے کر بھاگ گیاتھا۔ مجھے جان سے مارنے کی دھمکیاں ملنے کے بعد میں نے اس کی مدد کی۔ میں لڑکی کو بچپن سے جانتا ہوں کیونکہ اس کا بھائی میرے ساتھ پڑھائی کرتا تھا‘ مجھے اس نے انتباہ دیا تھا کہ مجھے ماردے گا‘‘۔ایک ویڈیو میں ریگر ’’ لوجہاد‘‘ سے بچنے کی ’’ ہندو بہنوں‘‘ کو تاکید کررہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ فلم پدماوتی جیسے فلموں نے تاریخ ہی بدل دی ہے۔

ایک دوسرے ویڈیو کلپ میں وہ بابری مسجد کی شہادت کے پچیس سال گذر جانے کے بعد بھی کچھ نہیں ہوا کہتا سنائی دے رہا ہے ۔ او روہ ملک میں’’ اسلامی جہاد‘‘ کے بڑھتے اثر کی بات کررہا ہے ۔ ائی جی سرایوستو نے کہاکہ اس تمام ویڈیوز کا مشاہدہ کرنے کے بعد یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ ریگر نے جان بوجھ کر یہ کام کیا ہے۔ جس میں اس کا نفرت پر مبنی بیانات بھی سامنے ہیں‘‘

https://www.youtube.com/watch?v=ncFw-zi9FKU