جا معہ کے اقلیتی کر دار کی نفی، آئین کی نفی: طاہر محمود

نئی دہلی: ممتاز ماہر قانون او رقومی اقلیتی کمیشن کے سابق سربراہ پروفیسر طاہر محمود نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دہلی ہائی کورٹ میں حکومت کی طرف سے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اقلیتی کردار کی مخالفت کیاجانا تاریخی حقائق کو جھٹلانا اور اقلیتوں کے آئینی حقوق سلب کرنے کے مترادف ہے۔

انہوں نے کہا کہ جامعہ نے مسلمانوں کے قائم کردہ عظیم تاریخی ادارہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی کوکھ سے جنم لیا تھا ا ور بالغ ہونے پر اس نے دھرم پریورتن نہیں کیا تھا۔اس لئے اس کی پیدائشی ولدیت اقلیتی کردار کی شکل میں آج بھی باقی ہے۔

طاہر محمود نے مزید کہاکہ جامعہ کا اقلیتی کردار 1963ء میں اسے معنوی یونیورسٹی کا درجہ ملنے پر بھی برقرار رہاتھا اور 1988میں اس کے لئے پارلیمانی ایکٹ کے بعد بھی کیوں کہ کوئی نئی یونیورسٹی پہلے پہل قائم کرنے اور برسوں سے مو جود کسی قدیم ادارے کو یونیورسٹی کا درجہ دینے میں بہت فر ق ہے۔

اور بعد والی صورت میں ادارے کا تاریخی کردار ہر گز نہیں بدلتا۔انہوں نے کہا کہ آئین کی دفعہ ۳۰ اس کے نفاذ کے بعد قائم ہو نیوالے اداروں ہی کیلئے نہیں ہے بلکہ پہلے سے قائم اداروں پر بھی اس کا پور ا ہورا اطلاق ہوتا ہے ۔

او را سکے بموجب جامعہ ملیہ اسلامیہ یقیناًایک اقلیتی ادارہ ہی ہے ۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ دہلی ہائی کور ٹ کے فاضل جج ان تاریخی حقائق اور قانونی نکات کا پاس کریں گے۔