جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ویمن ہاسٹل میں سخت کرفیو ‘ قوانین کے خلاف احتجاج پر بھی امتناع

جامعہ کے ایک ترجما ن نے کہاکہ لڑکیو ں کی حفاظت کولے کر والدین کی شکایت کے بعد کرفیو کے اوقات میں تبدیلی لائی گئی ہے جو نہیں چاہتے ہیں کہ ان کے بچے 10:30کے بعد باہر جائیں۔
نئی دہلی ۔خواتین طلبہ کے لئے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں خواتین طلبہ کے لئے تین ماہ کے بعد کرفیو کے اوقات میں8سے بڑھا کر10:30 توسیع پر احتجاج کے پیش نظر اوقات کو نو بجے تک کردیا گیاہے اور ہاسٹل کے قواعد وضوابط کے خلاف احتجاج کرنے کی کسی کو بھی اجاز ت نہیں دی گئی ہے۔

چہارشنبہ کے روزتعلیمی سال2018-19کے لئے ہاسٹل سیٹوں پر داخلہ کے خواہش مند طلبہ کو درخواست فارم کے ساتھ مذکورہ یونیورسٹی ایک ’نیامینو‘ بھی جاری کررہی ہے جو ہال گرلز میں رہائش کرنے والی ہیں‘ جس میں لکھا گیا ہے کہ کرفیو کے اوقات نو بجے بتائے گئے اور دیگر قوانین میں ہفتے کے ختم پر چھٹیاں لینے پر پابندی عائد کردی گئی ہے اور ساتھ میں اسٹوڈنٹس سے کہاگیا ہے کہ وہ اگر کسی دوسرے مقام کے لئے چھٹیوں پر جارہے ہیں ہوائی جہاز/ٹرین کے ٹکٹ کی کاپی بھی پیش کرے۔

ایک طلبہ نے دعوی کیاہے کہ احتجاج کے بعد جو قوانین میں راحت ملی تھی انہیں بھی دوبارہ نافذ کردیا گیا ہے جیسے کہ چھٹی کی درخواست کے لئے چوبیس گھنٹے قبل ایک فارم داخل کرنا بھی شامل ہے۔ اس طرح کی ’ ہداتیں‘ مردوں کے ہاسٹل میں جاری نہیں کی جاتی ہیں۔

و ہاں پر اس طرح کا کرفیو اور قوانین وضوابط کارگرد نہیں ہوتے۔جامعہ کے ایک ترجما ن نے کہاکہ لڑکیو ں کی حفاظت کولے کر والدین کی شکایت کے بعد کرفیو کے اوقات میں تبدیلی لائی گئی ہے جو نہیں چاہتے ہیں کہ ان کے بچے 10:30کے بعد باہر جائیں۔ترجمان نے کہاکہ ’’ کرفیو کے اوقات نہایت بہتر ہیں۔

دیگر کالجوں جیسے اندر پرستھا کالج ( ائی پی) لیڈی سری رام کالج فار ویمن سے یہاں کے قوانین نرم ہیں۔ اگر کسی اسٹوڈنٹ کو تحدیدات برداشت نہیں ہیں تو وہ کسی اور جگہ جاکر رہ سکتا ہے۔

احتجاج کے بعد قواعد میں نرمی کی گئی ہے‘‘۔ سابق طالب علم کوکب عالم نے کہاکہ احتجاجوں سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ کئی طلبہ مایوس ہوگئے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ’’ چھ سو کے قریب طلبہ نے چار گھنٹوں تک جاری رہنے والے احتجاج میں حصہ لیا۔

جو ہمارے مطالبات پر ثابت قدمی کا ثبوت ہے۔ لڑکیاں تحدیدات کے پہاڑ سے مایوس ہیں‘ یہ تحدیدات ہماری آزاد حمل ونقل اور چوبیس گھنٹوں میں کبھی بھی پڑھائی کے موقع پر کارضرب ہے‘‘۔

نئے قوانین کے ساتھ یہ بھی زمرہ شامل کیاگیا ہے کہ ’’ ہاسٹل قوانین کے خلاف کسی بھی احتجاج میں شامل نہیں رہوں گی‘‘ اور ہاسٹل سیٹ کے لئے درخواست دینے والی طلبہ کو اس پر دستخط کرنا ہوگا۔ علیم کا دعوی ہے کہ یہ ’’ اسٹوڈنٹس کے دلوں میں صاف طور پر یہ خوف او ردہشت پیداکرنے والا اقدام ہے‘‘۔

جامیہ ترجمان نے کہاکہ یہ اس لئے کیاگیا ہے کہ ’’ احتجاجیو ں کی وجہہ سے دیگر طلبہ کی تعلیم میں خلل پڑرہا ہے ‘‘