پیر اکٹوبر15کا دن نئی دہلی میں مایوس کن دن رہا تھا کیونکہ تین مائیں اپنے بچوں کے لئے انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے دہلی کی سڑکوں پر اترے۔
وہیں فاطمہ نفیس کی مانگ ہے تقریبا دوسال قبل جواہرلال نہرو یونیورسٹی ( جے این یو)سے لاپتہ اپنے بیٹے کی جانکاری فراہم کی جائے ‘ رادھیکا ویمولہ اور سائرہ یہ سچ جانتے ہیں کہ ان کے بیٹے اب واپس نہیں ائیں گے۔
نئی دہلی۔ رادھیکا کا بیٹا روہت یونیورسٹی آف حیدرآباد میں پی ایچ ڈی کا طالب علم تھا اور اس نے 2016جنوری میں خودکشی کرلی ‘اس کو ’’ ادارہ جاتی قتل ‘‘ قراردیتے ہوئے روہت کی موت کے بعد بڑے پیمانے پر طلبہ تنظیموں نے احتجاج بھی منظم کیاتھا۔روہت ایک اسٹوڈنٹ جہدکار اور امبیڈکر اسٹوڈنٹ اسوسیشن کا رکن بھی تھا۔
ممبئی کہ1993میں پیش ائے بم دھماکوں کے ملزم یعقوب میمن کو سنائی گئی سزائے موت کے خلاف ان کے شدید احتجاج پر دائیں باز و اسٹوڈنٹ اسوسیشن نے روہت پر ’’ ملک کے غدار کا لیبل ‘‘ لگادیا۔یہ بھی کہاجاتا ہے کہ مذکورہ اسی گروپ کے اراکین نے مبینہ طور پر روہت کے ساتھ مارپیٹ کی جس کی وجہہ سے سرجری کرنی پڑی۔
اس کے علاوہ روہت کو یونیورسٹی سے برطرف کرکے ہاسٹل سے نکال دیاگیا۔ بتایا یہ بھی جاتا ہے کہ یونیورسٹی نے روہت کی ماہانہ فلو شپ بھی بند کردیا گیاتھا۔ خودکشی سے تیرہ دن قبل تک روہت یونیورسٹی کے احاطہ میں بنے ایک عارضی دلت ویلی واڑہ میں مقیم تھے۔
اسٹوڈنٹ یونین کے مطابق روہت کی خودکشی کا سبب بڑھتے ماہانہ اخراجات ‘ ہراسانی ‘ جنسی تشدد اور ذہنی اذیت جو یونیورسٹی انتظامیہ کے ہاتھوں ہوئی تھی۔خودکشی سے ایک ماہ قبل یونیورسٹی کے وی سی کو لکھے ایک مکتوب میں روہت نے کہاتھا کہ یونیورسٹی کے ہر دلت طالب علم کو ایک زہر کی شیشی اور تھوڑی رسی بھی فراہم کریں۔
درایں اثناء سائرہ کے بیٹے جنید کو چلتی ٹرین میں نشست کو لے کر ہجوم کے سامنے قتل کردیاگیا۔وہ صرف 16سال کا تھا اور عیدکی خریدی کے بعد اپنے گھر واپس لوٹ رہاتھا۔ وہیں اس کیس میں کئی عینی شاہدین ہیں اور ملزم نے خود اقبال جرم کرلیاہے پھر بھی اب تک ملزمین کے خلاف کوئی کاروائی نہیں۔
اور تمام ملزمین کوضمانت پر رہا بھی کردیاگیا۔ سائیرہ کو جنتر منتر پر احتجاجی پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے دیکھا گیا۔پیر کے روز تقریبا 500لوگ جس میں طلبہ ‘ جہدکار او رسیول سوسائٹی کے اراکین بھی شامل تھے جنھوں نے دہلی میں جنتر منتر پر تین ماؤں کے نجیب ‘ روہت اور جنید کے لئے انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاج میں حصہ لیا۔ منڈی ہاوز تک پارلیمنٹ اسٹریٹ یہ احتجاج کیاگیا۔
دوسال قبل نجیب احمد جے این یو کیمپس سے لاپتہ ہوگیا۔ اکٹوبر15سال2016کو آخری مرتبہ نجیب کو اس وقت دیکھا گیا جب ایک رات قبل ماہی منڈوی ہاسٹل کے پاس اس کے ساتھ مارپیٹ کی گئی تھی۔
پچھلے دوسالوں میں نجیب کا پتہ لگانے میں سی بی ائی ناکام رہی اور اب اس نے تحقیقات کی رپورٹ بند کردینے کا فیصلہ کرلیاہے۔ نجیب کی ماں کی حمایت میں روہت او رجنید کی ماں بھی اس احتجاج میں ان کے ساتھ اگئی۔
You must be logged in to post a comment.