تین طلاق بل کی منظوری پارلیمنٹ کی تاریخ کا شرمناک دن

مراٹھی پترکار سنگھ یال میں منعقدہ سمینا رمیں دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند کا مودی حکومت پر حملہ‘ کہاکہ ’’ اب بات صرف فرقہ واریت کی نہیں رہ گئی ہے بلکہ اس ملک کو ’میجور یٹریانیزم‘ کی طرف لے جانے کی کوشش کی جارہی ہے جس کا مقصد اقلیتوں کو اکثریتی سونچ کے ماتحت لانا ہے
ممبئی۔ دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند جنھا نے طلاق ثلاثہ بل پیش کرکے اسے لوک سبھا میں اکثریت سے پاس کرانے پر مودی حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کرتے ہوئے کہاکہ ’’ مرکزی حکومت کے وزیر کا ٹریپل طلاق بل پیش کرنے کے وقت یہ کہنا کہ تین طلاق سیاست کا نہیں انسانیت کا معاملہ ہے ‘ حیران کن ہے‘‘۔

انہو ں نے طلاق ثلاثہ بل پیش کئے جانے کے دن کو پارلیمنٹ کے لئے شرمناک دن قراردیا۔ انہو ں نے گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ ’’2002کے دوران گجرات میں جو ہوا اور جو کیاگیا اور آج ملک میں جو ہورہا ہے اور کہاجارہا ہے اسے سمجھے سال2002میں گجرات کے وزیراعلی نے کہاتھا کہ ہمیں کیمپوں( جہاں فساد متاثرین نے پناہ لت تھی جن میں خواتین بھی تھیں) کو توڑ دینا چاہئے ہم دہشت گرد پید اکرنے والے اڈہ نہیں بناسکتے اور انہوں نے قہقہہ لگا کر کہاتھا کہ ہم پابچ اور ہمارے پچیس یعنی آج حکومت کو مسلم خواتین کے تحفظ کی فکر ستارہی ہے لیکن اس وقت گجرات میں کیاگیا تھا ؟ملک کے موجودہ حالات اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں اور پسماندہ طبقات کے حقوق کی پامالی ‘ ان کے خلاف تشدد اور مظالم کی بڑھتی وارداتیں‘ جمہوریت اور ائین ہند کولاحق خطرات کے حوالے سے سنیچر کومراٹھی پتر کار سنگھ ہال میں منعقدہ ایک سمینار میں پروفیسر اپوروآنند نے یہ باتیں کہیں۔

اہ پی سی آر نامی آرگنائزیشن کی جانب سے کمزور اور پسماندہ طبقات کے حقوق کی پامالی ‘ اسباب او رعلاج ‘ کے عنوان پر منعقدہ سمینار میں مقررین نے تفصیل سے اظہار خیال کیااور حقوق نسواں کے حوالہ سے خواتین کے حقوق کے تحفظ کا دم بھرنے والی مودی حکومت کو آئینہ دیکھانے کی کوشش کی ۔ انہو ں نے کہاکہ دلائل کی روشنی میں مذکورہ بل کے متعلق حکومت کے رویہ پر کہاکہ’’ طلاق ثلاثہ کے بل کی منظوری کا دن انتہائی شرمناک تھا‘‘

۔انہوں نے اس موقع پر اے ائی ایم ائی ایم کے صدر اسدالدین اویسی کے حوالے سے کہاکہ’’ پسند ناپسند اپنی جگہ میرے اویسی نے جو کہااس کو سنا کیوں نہیں گیا‘‘۔حکومت نے اکثریت کا حوالہ دیا مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کے پا س عقل بھی بہت زیادہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ ’’ میں اس اصطلاح کو نہیں دوہراؤں گا کہ ملک میں فرقہ واریت تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے کیونکہ جب ہم اس اصطلاح کا استعمال کرتے ہیں تو اس سے ہندو مسلم دونوں فرقو ں کی بات ہوتی ہے اس کے لئے میںیہ کہتا ہوں کہ موجودہ حالات میں ’’ میجوریٹیریانیزم کا مطلب سوچ اور تہذیب کا سب پر تسلط او راقلیتوں کو اکثریتی سوچ کے ماتحت لانا ہے ۔

اس کے خلاف ہم سب کو ایک ہوکر لڑنا ہوگا اور حکومت وقت کو یہ بتانا ہوگا کہ آپ جمہوری ڈھانچہ کو جس بے رحمی سے مسمار کردینا چاہتے ہیں ہم اس کی اجازت نہیں دے سکتے‘‘۔پروفیسر رام پنیانی نے تاریخی حوالوں سے گفتگو کی اور بطور خاص علاؤالدین خلیجی اور اورنگ زیب عالمگیرؒ کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ ’’ انہو ں نے کوئی ایسا کام نہیں جس سے ان کا حوالہ دیتے ہوئے اس وقت کے مسلمانو ں کو نشانہ بنایا جائے بلکہ جان بوجھ کر مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلائی جارہی ہے۔ مذہب کی سیاست کرنے والوں کا مذہبی اصولوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا وہ صرف سیاست کرتے ہیں‘‘۔

انہوں نے کہاکہ ہیومن رائٹس کو بچانے تو جمہوریت کا تحفظ کرنا ہوگا۔ سینئر ایڈوکیٹ یوسف حاتم مچھلا‘مولانا محمود زیابادی‘ ڈولفی ڈیسوزا اور محمد اسلم غازی نے بھی سمینا رسے خطاب کیا۔ شہود انور نے نظامت کی نیاز احمد نے شکریہ ادا کیا۔