تلگودیشم ،تلنگانہ میں کانگریس سے اتحاد کی خواہاں

۔30 اسمبلی حلقوں میں موقف مستحکم، تلنگانہ جناسمیتی اور تلگودیشم کیساتھ عظیم اتحاد کی تجویز

حیدرآباد۔ 5 جولائی (سیاست نیوز) تلگودیشم پارٹی کو تلنگانہ میں مستحکم کرنے کے لیے این چندرا بابو نائیڈو نے کانگریس کے ساتھ انتخابی مفاہمت کے ذریعہ اسمبلی اور لوک سبھا کے انتخابات میں حصہ لینے کا منصوبہ بنایا ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق تلنگانہ کے تلگودیشم قائدین سے مختلف مرحلوں میں مشاورت اور 119اسمبلی حلقوں میں پارٹی کے موقف کا جائزہ لینے کے بعد چندرا بابو نائیڈو نے قائدین کی اس تجویز سے اتفاق کرلیا کہ تنہا مقابلہ کے بجائے کانگریس پارٹی سے مفاہمت کی جائے تاکہ مخالف حکومت ووٹ تقسیم ہونے سے بچ جائیں اور دونوں پارٹیوں کو یکساں طور پر فائدہ ہو۔ پارٹی نے 25 تا 30ا سمبلی حلقوں کی نشاندہی کی ہے جہاں اس کا موقف مستحکم ہے۔ ان میں سے کانگریس کو کم از کم 20 نشستیں چھوڑنے کی ترغیب دی جائے گی۔ تلنگانہ میں تلگودیشم کے 11 ارکان اسمبلی کے پارٹی چھوڑنے کے بعد سے کیڈر کے حوصلے پست ہوچکے ہیں ۔ اسمبلی حلقوں کی سطح پر سینئر قائدین موجود ہیں جو ان کی سرپرستی کریں۔ ایسے میں تلگودیشم قائدین اور ان کا کیڈر برسر اقتدار پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے پر مجبور ہے۔ اس قدر کمزور صورتحال میں بھی تلنگانہ میں تلگودیشم کا 18 فیصد ووٹ بینک برقرار ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ آئندہ انتخابات میں 18 فیصد رائے دہندے کس حد تک پارٹی سے اپنی وابستگی کا ثبوت دیں گے۔ بتایا جاتا ہے کہ تلنگانہ میں پارٹی موقف کے بارے میں سروے کے اہتمام کے بعد چندرا بابو نائیڈو نے پارٹی قائدین کو کانگریس سے انتخابی مفاہمت کی بات چیت کرنے کی اجازت دی ہے۔ حالانکہ آندھراپردیش میں کانگریس پارٹی تلگودیشم کی حریف جماعت ہے لیکن تلنگانہ کی سیاسی صورتحال کے پیش نظر مقامی مفاہمت کو نائیڈو نے ہری جھنڈی دکھا دی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ کانگریس اعلی قیادت تک تلگودیشم نے مفاہمت کے سلسلہ میں اپنی پیشکش روانہ کردی ہے۔ تاہم کانگریس کی جانب سے جواب کا انتظار ہے۔ کانگریس کے بعض قائدین بھی اسی رائے کے حامل ہیں کہ ٹی آر ایس سے بہتر انداز میں مقابلہ کرنا ہو تو بہار کی طرح عظیم اتحاد تشکیل دے کر مقابلہ کرنا چاہئے۔ تلگودیشم کے علاوہ تلنگانہ جناسمیتی جس کے سربراہ پروفیسر کودنڈارام ہیں، ان کی پارٹی سے بھی انتخابی مفاہمت کی جاسکتی ہے۔ تلگودیشم کے کیڈر کی کمی کے باوجود کئی حلقوں میں موجود آندھرائی باشندے آج بھی تلگودیشم کا ووٹ بینک ہیں اور امیدوار کوئی ہو، وہ ووٹ تلگودیشم کو ہی دیں گے۔ برسر اقتدار ٹی آر ایس پارٹی دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے کوئی بھی حربہ نہیں چھوڑے گی۔ ایسے میں اگر کانگریس عظیم اتحاد کی تشکیل کے لیے آمادہ ہوتی ہے تو مخالف حکومت ووٹ تقسیم ہونے سے بچ جائیں گے۔ واضح رہے کہ تلنگانہ تشکیل کے بعد بھی تلگودیشم نے اسمبلی کی 14 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ اگرچہ تلگودیشم نے علیحدہ تلنگانہ تحریک کی تائید نہیں کی اور پارٹی کا موقف متحدہ آندھراپردیش کے حق میں رہا لیکن تلنگانہ میں مقیم آندھرائی باشندوں نے تلگودیشم کے حق میں ووٹ استعمال کرتے ہوئے 14 اسمبلی حلقوں میں کامیابی دلائی۔ بعد میں 11 ارکان اسمبلی نے ٹی آر میں شمولیت اختیار کرلی۔ باقی 3 ارکان اسمبلی میں ریونت ریڈی کانگریس میں شامل ہوگئے جبکہ آر کرشنیا نے خود کو پارٹی کی سرگرمیوں سے علیحدہ کرلیا ہے۔ اسمبلی میں فی الوقت تلگودیشم کے واحد رکن اسمبلی ایس وینکٹ ویریا ہیں جو چندرا بابو نائیڈو کے انتہائی وفادار سمجھے جاتے ہیں۔ ریونت ریڈی اور وینکٹ ویریا ووٹ برائے نوٹ اسکام میں ملزمین کی حیثیت سے شامل ہیں۔ تلگودیشم کی گریٹر حیدرآباد کے حدود میں مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2014ء میں جن اسمبلی حلقوں میں پارٹی کو کامیابی ملی تھی ان میں جوبلی ہلز، صنعت نگر، کنٹونمنٹ، قطب اللہ پور، کوکٹ پلی، ایل بی نگر، مہیشورم، ابراہیم پٹنم، شیر لنگم پلی اور راجندر نگر شامل ہیں۔ تلگودیشم سے بغاوت کرنے والے اولین رکن سرینواس یادو ہیں جنہیں کے سی آر نے وزارت میں شامل کیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کانگریس اور تلگودیشم میں مفاہمت کی مساعی کس حد تک کامیاب ہوگی۔