تلنگانہ وقف بورڈ کی تشکیل‘ ٹی آر ایس وحلیفجماعت مجلس میں اختلافات آشکار

مجلس نے ڈپٹی چیف منسٹر کے ناشتہ کا بائیکاٹ کیا۔ صدر نشین کے انتخاب سے دوری
حیدرآباد:تلنگانہ وقف کی تشکیل کے ساتھ ہی ٹی آ رایس پارٹی اور اس کی حلیف جماعت مجلس کے درمیان میں اختلافات منظر عام پر آچکے ہیں بورڈ میں نامزد ارکان کے زمرے میں سفارش کردہ ناموں کی عدم شمولیت سے ناراض مجلس کے تائیدی ارکان نے ڈپٹی چیف منسٹر محمدمحمودعلی کے ناشتے کا بائیکاٹ کیا۔وہ بورڈ کے پہلے اجلاس کابھی بائیکاٹ کرنے والے تھے تاہم لمحہ آخر میں حکومت کے سرکردہ افراد کی مداخلت پر مجلس کے تائیدی امیدواروں نے صدرنشین کے انتخاب کے لئے منعقدہ اجلاس میں شرکت کی ۔

تاہم انہوں نے خود کو صدرنشین کے انتخاب سے دور رکھا۔ بورڈ کے گیارہ اراکان کے منجملہ نو افراد نے اجلاس میں شریک رہے جس میں مجلس کے تائیدی چار ارکان بھی شامل ہیں۔

صدر نشین کے انتخاب کے لئے حکومت کے تائیدی رکن مرزا انور بیگ نے ٹی آ رایس رکن قانون ساز کونسل محمدسلیم کے نام پیش کیا جس کی تائیدحکومت کے تائیدی نامزد رکن اور جماعت اسلامی کے قائد ملک معتصم خان نے کی ۔ اس طرح اتفاق رائے سے صدر نشین کے انتخاب کااعلان کردیاگیا۔

بتایاجاتا ہے کہ بورڈ کی تشکیل کے سلسلہ میں ٹی آ رایس اور اس کی حلیفجماعت میں جو معاہدہ طئے پایا تھا اس کے مطابق منتخب ہونے والے چار زمرے جات کے دوارکان کے لئے ٹی آ رایس امیدواروں کی کامیابی کی راہ ہموار کی جائے گی جس کے جواب میں نامز د ارکان میں حلیف جماعت کے دوارکان کو بھی شامل کیاجائے گا۔

کل رات حکومت نے بورڈ کی تشکیل کے لئے اعلامیہ جاری کرتے ہوئے نامزد ارکان کے زمرے میں پانچ ناموں کااعلان کیاہے ان میں مقامی جماعت کی سفارش کردہ صرف ایک رکن نثا ر احمد حسین حیدرآغا کو شامل کیاگیا ۔ جبکہ سنی اسکالر کے زمرے میں مقامی جماعت نے مولاناظہیرالدین صوفی کانام پیش کیاتھاان کی جگہ حکومت نے ٹی آ رایس پارٹی سے تعلق رکھنے والے وحید احمد ایڈوکیٹ کو نامزد کردیا۔

اعلامیہ کی اجرائی کے ساتھ ہی مقامی جماعت نے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے ڈپٹی چیف منسٹر کو اپنے جذبات سے واقف کروایا۔ باوثوق ذرائع سے ملی اطلاع کے مطابق حلیف جماعت کو پارٹی کے قائد کی سنی اسکالر کی حیثیت سے شمولیت پر اعتراض ہے جس پر اظہار ناراضگی کے لئے ڈپٹی چیف منسٹر کی جانب سے تمام ارکان کے لئے اہتمام کردہ ناشتے کی ضیافت کا بائیکاٹ کیا۔

مقامی جماعت کے ارکان نے بعد نماز جمعہ صدرنشین کے انتخاب کے لئے اجلاس کا بھی بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کرلیاتھا۔اس صورتحال سے الجھن کا شکار حکومت نے مصالحتی سرگرمیوں کا آغاز کیااور کسی طرح مقامی جماعت کو اجلاس میں شرکت کے لئے راضی کرلیاگیا۔

اس کے ارکان مقرر وقت سے تاخیر پر پہنچے اور انتخابی عمل میں شامل بھی نہیں ہوئے ۔اگر صورتحال بہتر ہوتی تو مقامی جماعت کی جانب سے صدرنشین کے نام کی پیش کش کی جاتی اور نامزد ارکان سے کوئی تائیدکرتے ۔

صدرنشین کے انتخاب کے بعد مولانا اکبر نظام الدین حسینی صابری نے اس بات کااعتراف کیا کہ حکومت نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حلیف جماعت کے ساتھ عملادھوکہ کیاہے۔منتخب ارکان میں مجلس کی جانب سے دوکے انتخاب کے بعد جب نامزد ارکان کا مرحلہ آیا تو حکومت نے صرف ایک رکن کوشامل کیا جبکہ دو ارکان کا معاہدہ کیاگیاتھا۔

حکومت نے حلیف جماعت کو تاریکی میں رکھتے ہوئے یہ احکامات جاری کردئے ۔ صدرنشین کے انتخاب کے باوجود مقامی جماعت کے ارکان مطمئن نظر نہیں ائے او روہ صدرنشین کے انتخاب کے فوری بعدوقف بورڈ سے روانہ ہوگئے۔

بتایاجاتا ہے کہ وقف بورڈپر اپنا غلبہ برقرار رکھنے کے لئے چیف منسٹر کی ہدایت پر مقامی جماعت کے سفارش کردہ دو کے منجملہ صرف ایک نام کو شامل کیاگیا ۔

بورڈ کی تشکیل کے سلسلہ میں دونوں جماعتوں میںیہ کشیدگی کا اثر بورڈ کی کارکردگی پر بھی پڑسکتا ہے۔ موجودہ بورڈ میں 11ارکان ہیں جن میں سے چھ کاتعلق حکومت کے تائیدی ارکان کی حیثیت سے ہے اور پانچ مقامی جماعت کے تائیدی ہیں۔

الیکشن زمرہ میں چھ ارکان میں چار کاتعلق مقامی جماعت سے ہے جبکہ 5نامزد کردہ ارکان چار برسراقتدار سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں ۔