ریاست میں کوئی معاشی ڈسیپلن نہیں ۔ اقتصادی خسارہ بھی زیادہ
جی ایچ ایم سی کیلئے مختص فنڈز کا بھی بہت کم استعمال
مشن کاکتیہ کے صرف 28 فیصد کام مکمل ۔ سی اے جی رپورٹ
حیدرآباد 29 مارچ ( پی ٹی آئی ) حکومت تلنگانہ کے پاس سال 2016-17 کے دوران 1,386 کروڑ روپئے کا فاضل مالیہ تھا تاہم اس نے ان اعداد و شمار کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور فاضل مالیہ 6.778 کروڑ روپئے ظاہر کیا ہے ۔ کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل نے یہ انکشاف کیا ہے ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس صورتحال میں ریاست کو جملہ 5,392 کروڑ روپئے کے مالیاتی خسارہ کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ سی اے جی نے مارچ 2017 میں ختم ہوئے سال سے متعلق ریاست کے مالیاتی امور پر اپنی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا ہے ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریاست کا جملہ اقتصادی خسارہ 35.281 کروڑ روپئے کا تھا جو جملہ ریاستی گھریلو پیداوار کا 5.46 فیصد تھا ۔ ریاستی حکومت نے اس کو گھٹا کر صرف 2,500 کروڑ روپئے بتایا اور جو قرضہ جات ریاستی حکومت نے حاصل کئے تھے انہیں مالیہ وصولی کے طور پر دکھایا گیا ہے ۔ یہ رپورٹ تلنگانہ اسمبلی میں پیش کی گئی ہے ۔ اس میں کہا گیا ہے کہ 31 مارچ 2017 تک قرضہ جات کی واپسی کا جو شیڈول تھا اس کو دیکھتے ہوئے ریاستی حکومت کو آئندہ سات سال میں جملہ قرضہ جات کا 49 فیصد واپس کرنا ہے جو رقم 56.388 کروڑ روپئے ہوتی ہے ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹیکس مالیہ میں اضافہ کے اعتبار سے قرضہ جات کی جو واپسی ہے وہ سال 2015-16 میں 7.12 فیصد تھی جو 2016-17 میں بڑھ کر 32.16 فیصد ہوگئی ہے ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اقتصادی خسارہ کا جو تناسب تھا وہ اودئے اسکیم کے تحت منتقل فنڈز کو چھوڑ کر جملہ ریاستی پیداوار کا 4.3 فیصد تھا ۔ یہ تناسب 14 ویں فینانس کمیشن کی جانب سے مقررہ 3.5 فیصد سے زیادہ تھا ۔
اس کے علاوہ اوسط مدتی اقتصادی پالیسی بیان اور ریاستی اقتصادی ذمہ داری اور بجٹ مینجمنٹ قانون میں بھی یہی نشانہ مقرر کیا گیا تھا ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جو Capital اخراجات تھے وہ بھی مقررہ نشانہ سے زیادہ تھے ۔ یہ نشانہ 29,313 کروڑ مقرر کیا گیا تھا جبکہ اخراجات 33,371 کروڑ روپئے کے رہے ۔ این ایس ایس کے بموجب سی اے جی نے اپنی رپورٹ میں یہ ادعا کیا ہے کہ ریاست میں کوئی معاشی ڈسیپلن نہیں ہے ۔ رپورٹ کے بموجب ملک کی اس سب سے نئی ریاست کو ریت مائننگ کی وجہ سے کروڑہا روپئے کا نقصان ہوا ہے ۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ مشن کاکتیہ کے کام بھی صرف 28 فیصد مکمل ہوئے ہیں ۔ اب تک حکومت نے صرف 7,901 تالابوں کی صفائی کی ہے جبکہ وہ 27,918 ٹینکس صاف کرنے کا دعوی کرتی ہے ۔ جو ٹینکس واقعی صاف کئے گئے ہیں ان میں بھی 10 سے 100 فیصد تک کام پورا نہیں ہوا ہے ۔ رپورٹ کے بموجب مجلس بلدیہ کیلئے گذشتہ تین سال میں چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کے اقتدار میں 144 کروڑ روپئے مختص کئے گئے تھے لیکن ہر سال صرف 46 کروڑ روپئے ہی خرچ کئے گئے ۔ رپورٹ میں مختلف مثالیں پیش کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اخراجات کی نگرانی اور کنٹرول کا نظام کمزور ہے ۔ کہیں اخراجات بہت زیادہ ہوگئے ہیں تو کہیں بچت بہت زیادہ ہوگئی ہے ۔ سی اے جی نے اپنی رپورٹ میں فنڈز کے بہت زیادہ ‘ غیر ضروری اور ناکافی استعمال کا بھی تذکرہ کیا ہے اور کہا گیا ہے کہ محکمہ فینانس اور دوسرے محکمہ جات کے مابین تال میل کا فقدان ہے ۔