تعدد ازدواج اور زناپر ضمانت تو طلاق ثلاثہ پر ضمانت کیوں نہیں؟

طلاق ثلاثہ بل سے مسلم خواتین کے حقِ خلع کو بھی خطرہ، مسلم پرسنل لاء بورڈ کی خاتون ارکان کا استدلال

نئی دہلی 3 اپریل(سیاست ڈاٹ کام) دی مسلم ویمن (نکاح کے موقع پر حقوق کا تحفظ) بل مجریہ 2017 نہ صرف خلاف شریعت اور مسلم عورتوں کے حقوق اور صنفی عدل کے خلاف ہے بلکہ اس سے دستور ہند کی بھی خلاف ورزی ہوتی ہے لہذا اسے فوری طور پر واپس لیا جائے ۔یہ مطالبہ آج یہاں ڈپٹی اسپیکر ہال(انیکسی)، کانسٹی ٹیوشن کلب میں میڈیا اور اور دوسری اہم شخصیات سے ملاقات اور مکالمے کے دوران آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ذمہ داران نے کیا جن میں ڈاکٹر اسما ء زہرا،محترمہ فاطمہ مظفر،شامل تھیں۔پریس اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کے نمائندوں سے مخاطب ذمہ داران نے ملت اسلامیہ ہند کی طرف سے استدلا ل کیا کہ متعلقہ بل کوپارلیمنٹ کے طے شدہ ضوابط، شرائط اور روایات کا پاس رکھے بغیر لوک سبھا سے بڑی عجلت میں منظور کیا گیا۔ا س بل کی تیاری میں نہ تو مسلمانوں کے مستند علماء اور دانشوروں سے رجوع کیا گیا اور نہ ہی مسلم خواتین کی تنظیموں، این جی او ز اور خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم سماجی تنظیموں اور کارکنوں سے کوئی رائے مانگی گئی بلکہ انہیں توپوری طرح اندھیرے میں رکھا گیا۔اس تاثر کی ساتھ کہ اس بل کو جسے سپریم کورٹ اپنے اکثریتی فیصلہ میں پہلے ہی غیرمؤثر قرار دے چکا تھا، اتنی عجلت میں لانے کی مطلق ضرورت نہیں تھی ۔ سپریم کورٹ کے ایک اقلیتی فیصلہ کو اس قانون سازی کے لیے جواز بنانا بالکل ہی بے محل اور غلط بات ہے ۔اپنی بات کو ہندستانی مسلمانوں کے موقف کے طور پر سامنے لاتے ہوئے پریس سے مخاطب ذمہ داروں نے جن میں محترمہ عطیہ صدیقہ،محترمہ یاسمین ،محترمہ ممدوحہ ماجد بھی شامل تھیں ۔ایک سول معاملہ کو فوجداری جرم بنا دینے کو بھی غیرمعقول بلکہ قانونی طور پر غلط گردانااور کہا کہ معترضہ بل کے تیسرے باب کی شق 7میں بیوی کو بہ یک نشست تین طلاق دیئے جانے کو ایک غیرضمانتی اور مستوجب سزاء قرار دینا کیسے درست ہو سکتا ہے جب کہ تعدد ازدواج اور زنا دونوں ہی ضمانتی اورغیر مستوجب سزاء جرم ہیں۔متعلقہ بل کی مخافت اس تمہید کے ساتھ بھی کی گئی کہ اس بل میں کہا گیاہے کہ بہ یک نشست دی جانے والی طلاق واقع ہی نہیں ہوگی اور ازدواجی رشتہ باقی رہے گا۔جبکہ طلاق ثلاثہ کی طرح طلاق بائن بھی فوری اور ناقابل تبدیلی طلاق ہے ۔ اس کا مطلب ہوا کہ اب طلاق بائن بھی باطل اور بے اثر قرار پائے گی۔مزید یہ کہ اگر طلاق کے بعد بھی ازدواجی رشتہ باقی رہتا ہے تو پھر قانون میں بچوں کی تولیت اور شوہر پر نفقہ کی ذمہ داری کا باقی رہنا کیا ایک دوٹوک تضاد نہیں ۔پریس کانفرنس سے مخاطب ہونے والی خواتین نے یہ بھی کہا کہ طلاق کی مذکورہ بالا تعریف کی زد میں” خلع” بھی آ جاتا ہے جو کہ عورت کا مرد سے طلاق حاصل کرنے کا ایک حق ہے ۔خلع مانگنے والی عورت کو بھی اس قانون کے تحت مجبور کیا جائے گا کہ وہ علیحدگی اختیار نہ کرے ۔